اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے ثابت ہے۔ اوروہ بھی تعویذ کے طور پر نہیں بلکہ دعا کے طور پر۔میں کبھی بیماری کی طرف توجہ نہیں کرتا کہ اس کو نکال رہا ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعا کے ساتھ توجہ کرتا ہوں اور عامل توجہ اس طرح کرتے ہیں کہ میں (بیماری) نکال رہا ہوں اور یہ بھی تجربہ ہوا ہے کہ صاحبِ تصرف کو یکسوئی رہے تو تصرف میں قوت آجاتی ہے مگر انبیا کاطریقہ یہی رہا کہ وہ رجوع الی اللہ کرتے تھے (یعنی اللہ کی طرف رجوع ہوتے اور اسی سے دعا کرتے تھے۔) 2وظیفوں کے پڑھنے میں غلو اور بدنیتی آج کل وظائف زیادہ تر دنیا کے واسطے پڑھے جاتے ہیںکہ مال میں خوب برکت ہو، نوکری مل جائے، قرض ادا ہوجائے حق تعالیٰ کی رضامندی کے واسطے بہت ہی کم پڑھے جاتے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ دنیا کے کاموں کے لیے وظیفہ پڑھنا ناجائز ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ دنیا کے لیے اگر چالیس بار پڑھتے ہو تو آخرت کے لیے کم از کم چار بار تو کوئی وظیفہ پڑھو مگر اس کی ذرا بھی فکر نہیں۔ ایک عہدیدار صاحب رشوت لیا کرتے تھے اور نماز کے بھی بہت پابند تھے حتیٰ کہ فجر کی نماز کے بعد اشراق تک وظیفہ بھی پڑھا کرتے تھے اور یہی وقت مقدمہ والوں سے رشوت طے کرنے کا وقت تھا۔ مقدمے والے آتے اور اشاروں سے رقم طے ہوتی تھی کیوں کہ پیر صاحب نے وظیفہ میں بولنے سے منع کر رکھا تھا۔بس وہ اشاروں سے سو کہتا اور یہ دو انگلیاں اٹھا دیتے کہ دو سو لوں گا۔ پھر اشاروں ہی سے کوئی رقم طے ہوجاتی تو یہ جائے نماز کا کونہ پکڑ کر اٹھادیتے کہ یہاں روپیہ رکھ دو۔ پھر کوئی دوسرا آتا اس سے بھی یوں ہی گفتگو ہوتی۔ غرض یہ ظالم اشراق پڑھ کر کئی سو روپے لے کر اٹھتا۔ آج کل ملنا اسے کہتے ہیں اور اسی واسطے وظیفے بھی پڑھے جاتے ہیں۔ اور غضب ہے کہ بعض لوگ قرآن پڑھنے میں تو بول پڑھتے ہیں اور وظیفہ میں نہیں بولتے گویا نعوذ باللہ قرآن کی وقعت وظیفوں کے بھی برابر نہیں یہ کیسی ناقدری ہے۔ ایک صاحب مجھ سے خود کہتے تھے کہ میری نماز تو قضا ہوجاتی ہے مگر پیر صاحب نے جو وظیفہ بتلایا ہے وہ کبھی قضا نہیں ہوتا ۔ عجیب حالت ہے کہ اول تو دین کی طرف توجہ ہی نہیں اور جو توجہ بھی ہے تو اس خوبصورتی کے ساتھ ۔ اسی طرح ان عہدیدار صاحب کو پیر نے منع کردیا تھا کہ وظیفہ میں بولنا نہیں، اس لیے ان کو بولنا تو ناجائز تھا مگر رشوت لینا جائز تھا بلکہ شاید وہ وظیفہ بھی اسی واسطے پڑھتے ہوں کہ رشوت خوب ملے اور رشوت کے لیے بھی نہ سہی تو اس میں تو شک نہیں کہ آج کل وظیفے زیادہ تر دنیا کے واسطے پڑھے جاتے ہیں۔1