اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں پہلے ایسے خطوں میں بعض عاملوں کا پتہ لکھ دیا کرتا تھا مگر معلوم ہوا کہ وہاں کمائی ہونے لگی ہے۔ یہاں تک کہ ایک صاحب نے ایک تعویذ دیا اور پھر کہا کہ ایک سو ایک روپیہ نذرانہ دیجیے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر پہلے کہہ دیتے (کہ ایک تعویذ کے اتنے پیسے لوں گا) تو اچھا تھا۔ اب بے چارے کو مجبوراً دینا پڑا۔3عمل وتصرف کے ذریعے کسی کا مال لینا حرام ہے عملیات وتصرف کے ذریعے سے کسی سے کچھ وصول کرنا یہ بھی حرام ہے۔ بعض اہلِ تصرف اس کو بزرگی سمجھتے ہیں کہ کسی طرف متوجہ ہوگئے کہ یہ شخص ہم کو پانچ سو روپے دے گا۔ تصرف کے اندر یہ اثر ہے کہ اس شخص کا قلب مغلوب ہوکر متاثر ہوجاتا ہے اور وہی کام کرتا ہے (جس کا اس نے تصرف کیا ہے)۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حلال ہے حالاں کہ حرام ہے اور ایسا ہی حرام ہے جیسے کسی کو مار کر چھین کرلیا جائے۔ اور ایسے دیئے ہوئے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بعد میں آدمی پچھتاتا ہے۔ ایک فقیر صاحبِ تصرف تھا وہ کچھ پڑھ کر پیشانی پر مٹی لگا لیتا تھا ایک مرتبہ وہ ایک انگریز کے پاس گیا اس انگریز نے اس کی صورت دیکھتے ہی نوکر کو حکم دیا کہ اس کو سو روپیہ دے دو۔ جب وہ چلا گیا تو بہت پچھتایا کہ میں نے کیا کیا؟ فوراً نوکر سے کہا: اس کو پکڑو۔ جب وہ آیا تو صورت دیکھتے ہی کہا کہ اس کو کچھ نہ کہو اور وہ سو روپے دے دو۔ پھر وہ چلا گیا تو پھر پچھتایا۔ اور پھر نوکر سے کہا کہ اس کو پکڑو۔ جب وہ سامنے آیا تو پھر یہی کہا۔تیسری بار میں خانساماں نے کہا کہ آپ تو پریشان کرتے ہیں آپ لکھ کر دیجیے۔ چناں چہ سو روپیہ دینا اس سے لکھوالیا۔ اس وقت وہ نادم تو ہوا یعنی پچھتایا تو لیکن چوں کہ لکھ چکا تھا اس لیے کچھ نہ بولا۔ پس اس طرح کسی کا مال لینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے لٹھ مار کر لینا۔ یاد رکھو! جو عمل ہاتھ پاؤں سے ناجائز ہے وہ قلب سے بھی ناجائز ہے۔1باطنی تصرف یا کسی عمل کے ذریعہ مال حاصل کرنا اگر کوئی درویش (بزرگ صوفی) باطنی تصرف سے کسی کے دل میں یہ خیال ڈال دے کہ فلاں شخص کو ایک ہزار روپیہ دے دو (اس کا اس طرح کرنا اور دوسرے کو) اس کا لینا بھی حرام ہے۔ لوگ اس کو کمال سمجھتے ہیں۔ مگر ایسا کرنا حرام ہے کہ باطنی تصرف سے کسی کا مال لیا جائے۔ تجربہ ہے کہ ایسی صورت میں آدمی دب کر کچھ دے دیتا ہے پھر بعد میں پچھتاتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ خوش دلی سے نہیں دیا تھا۔2 اور رسول اللہﷺ نے فرمایا: أَلَا لَا تَظْلِمُوْا، أَلَا لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِطِیْبِ نَفْسٍ مِنْہُ۔