اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہیں، یہ صرف اختراع ہے۔1مسئلے کی تحقیق وتفصیل کسی وبا طاعون یا زلزلہ کے وقت اذان پکارنا : سوال: دفعِ وبا (مثلاً طاعون) کے واسطے اذان دینا جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو لوگ استدلال میں ’’حصنِ حصین‘‘ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں:إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔ان کا یہ استدلال درست ہے یا نہیں؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے اور ایسے ہی یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اذان سے اس قدر دوربھاگتا جاتا ہے جیسے (مدینہ کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے) اور طاعون اثرِ شیطان سے ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ الجواب: اس باب میں دو حدیثیں معروف ہیں، ایک ’’حصن حصین‘‘ کی مرفوع حدیث :إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔ دوسری حدیث ’’صحیح مسلم‘‘ کی حضرت سہل ؓسے مرفوعاً مروی ہے:إِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا فَنَادِ بِالصَّلَاۃِ؛ فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ: إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَاۃِ وَلَّی الشَّیْطَانُ وَلَہٗ حُصَاصٌ۔ اور ’’حصنِ حصین‘‘ میں ’’مسلم‘‘ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ یہی حدیث ہے۔ اور دونوں حدیثیں مقید ہیں: ’’إِذَا تَغَیَّلَتْ‘‘ ’’وَإِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا‘‘ کے ساتھ، اور جو حکم مقید ہوتا ہے کسی قید کے ساتھ اس میں قید نہ پایے جانے کی صورت میں وہ حکم اپنے وجود میں مستقل دلیل کا محتاج ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ طاعون میں دونوں قیدیں نہیں پائی جاتیں، کیوں کہ نہ اس میں شیطان کا تشکل وتمثل (یعنی صورتیں نمودار ہوتی ہیں) اور نہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے، صرف کوئی باطنی اثر ہے (جس کی وجہ سے طاعون ہوتا ہے)۔ پس جب اس میں دونوں قیدیں نہیں پائی گئیں تو مذکورہ دونوں حدیثوں سے اس میں اذان کا حکم بھی ثابت نہ ہوگا۔ اور دوسری شرعی دلیل کی حاجت ہوگی(اور دوسری کوئی ایسی دلیل ہے نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاعون یا اس جیسی وبا کے وقت اذان پکاری جائے)۔ اور قیاس بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ اذان حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح پر مشتمل ہے، اس لیے غیر صلوٰۃ کے لیے اذان کہنا غیرِ قیاسی حکم ہے۔ قیاس سے ایسے حکم کا تعدیہ نہیں،اس لیے وہ دلیلِ شرعی کوئی نص ہونا چاہیے، محض قیاس کافی نہیں اور طاعون میں کوئی نص موجود نہیں۔ الغرض نفس الامر میں یہ حکم غیرِ قیاسی ہے پس اس قیاس سے زلزلے وغیرہ کے وقت بھی اذان کی گنجایش نہیں ہوسکتی۔