اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تعالیٰ) ممکن ہے۔ اگرچہ عوام کے غلو پر نظر کرکے اس کی بالکلیہ نفی ان کے لیے اصلح (مناسب) ہے، اور یہ استقرارِ ارواح فی البرزخ کے منافی نہیں، (کیوں کہ) وہ استقرار اصل عادت ہے، اور کسی عادت کے سبب اذنِ الٰہی کے بعد اس سے انفصال خرقِ عادت ہے اور اس کا وقوع احیاناً متواتر المعنی ہے۔ تفسیرِ مظہری میں بھی اجمالاً اس سے تعرض کیا ہے، تحت قولہٖ تعالیٰ: {بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْن}۔ (آل عمران: ۱۶۹۔)عجیب واقعہ جس زمانے میں میں کانپور میں تھااس زمانے میں (مجھ سے متعلق) ایک شخص نے بیان کیا کہ ایک شخص ایسا ہے کہ اس کے ذریعہ سے جس مردے کی روح کو چاہیں بلا سکتے ہیں۔ مجھ کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی اور خود دیکھنا چاہا۔ اس شخص نے کہا کہ میں ان آدمیوں کو جو اس عمل کوکرتے ہیں بلا کر لاؤںگا اور آپ کے سامنے یہ عمل کراؤں گا۔ چناں چہ وہ لوگ ہمارے پاس آئے یہ تین شخص تھے۔ مگر ہم نے مدرسے میں تو یہ شغل مناسب نہ سمجھا، اس لیے ایک دوسری جگہ اس کام کے لیے تجویز کی، اس مکان میں صرف چھ شخص تھے، تین وہ عامل اور ایک میں اور میرے ساتھ ایک مدرسے کے مہتمم اور ایک مدرس۔ عصر کے بعد یہ اجتماع ہوا، ان عاملوں نے یہ کیا کہ دونوں ہاتھوں کو رگڑ کر میز پر رکھا اور ادھر متوجہ ہوئے، تھوڑی دیر کے بعد خود بخود میز کا پایا اٹھا۔انھوں نے کہا: لیجیے اب روح آگئی، انھوں نے کہا: تمہارا نام کیا ہے ؟ معلوم ہوا کہ تجمل حسین، کوئی آواز نہ تھی کچھ اصطلاحات مقرر تھی، ان سے سوالا ت کے جوابات معلوم ہوجاتے تھے، اب لوگوں نے مبتدع شخص کے لڑکے کی روح کو بلوایا اور اسی تجمل حسین کی روح کو مخاطب کرکے کہا کہ جاؤ اس شخص کی روح کو بلا لاؤ۔ اور جب جانے لگو تو فلاں پایہ کو اٹھا جانا، اور جب تم اس کو لے کر آؤ تواپنے آنے کی اطلاع اس طرح کرنا کہ اس پایہ کو پھر اٹھادینا، چناں چہ فوراً پایہ اٹھا، معلوم ہوا کہ روح کو لینے گیا ہے، تھوڑی دیر کے بعد پایہ اٹھا معلوم ہوا کہ جس کی روح کو بلایا تھا وہ بھی آگئی۔ اصطلاحوں میں اس لڑکے کی روح سے سوالات کرنے شروع کیے، اور اس کی طرف سے اسی اصطلاحوں میں جوابات دیے گئے۔ اب ہم ناواقف لوگ بڑی حیرت میں تھے کہ کیا معاملہ ہے۔ ان لوگوں نے مجھ سے فرمایش کی کہ آپ جس شخص کی روح کو بلوانا چاہیں تو ہم سے فرمائیے، ہم اس شخص کی روح کو بلادیں گے۔ چناں چہ میں نے حافظ شیرازؒ کی روح کو بلوایا۔ وہی تجمل حسین سب روحوں کو بلا کر لاتا تھا۔ چناں چہ اسی طرح پایہ پھر اٹھا، معلوم ہوا کہ حضرت حافظ صاحب بھی تشریف لے آئے۔ میں نے کہا: السلام علیکم۔ اصطلاح میں جواب ملا: وعلیکم السلام۔ پھر ان لوگوں نے مجھ سے کہا کہ آپ حافظ ؒ کا کچھ کلام پڑھئے ان کی روح خوش ہوگی۔ چناں چہ میں نے ان کی غزل: أَلَا یَا أَیُّہَا السَّاقِي إلخ پڑھی تو میز کا پایہ بار بار اور جلدی جلدی اٹھنے لگا، اس سے یہ سمجھا جانے لگا کہ گویا حافظ صاحب ؒ