اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کواکب کو مستقل بالتاثیر نہیں مانتا بلکہ باذنِ الٰہی (اللہ کے حکم سے) ان کو اسبابِ عادیہ سمجھتا ہے۔ سو چوں کہ یہ اعتقاد واقع کے خلاف ہے اس لیے اس شخص کو صرف جھوٹ کا گناہ ہوگا۔ اور نصوص کی تاویل سے تعجب نہیں کسی قدر بدعت کا بھی گناہ ہوگا۔ اور اگر شارع ؑ کی تکذیب کرتا ہے (یعنی غلط کہتا ہے)، یا کواکب میں مستقل تاثیر مانتا ہے تو وہ شخص کافر ومشرک ہے۔1فصل عمل کے ذریعے کسی کو قتل کرنے کا شرعی حکم عملیات کے ذریعہ کسی کو ہلاک کرنے کا یہی حکم ہے (کہ عمل کے ذریعہ ہلاک کرنے والے شخص کو قتل کا گناہ ہوگا) چناں چہ ایک عمل کچی اینٹ کا ہے، جس کو ہلاک کرنا منظور ہوتا ہے اس کے واسطے ایک کچی اینٹ پر عمل کرتے ہیں پھر اس کو کفن وغیرہ دے کر اس پر نماز جنازہ پڑھ کر ندی میں ڈال دیتے ہیں۔ پانی سے وہ اینٹ گھلنا شروع ہوتی ہے۔ جیسے جیسے وہ گھلتی ہے اسی قدر یہ شخص گھلنا شروع ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اینٹ جب بالکل گھل جاتی ہے یہ شخص بھی گھل گھل کر ہلاک ہوجاتا ہے۔ یہ بہت ہی سخت عمل ہے۔ خوب سمجھ لو اگر وہ شخص مستحق قتل نہیں ہے تو تم کو قتل کا گناہ ہوگا۔ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم نے تو قرآن سے مارا ہے(یعنی قرآنی عمل کے ذریعہ مارا ہے) پھر ہمیں گناہ کیوں ہوگا؟ میں کہتا ہوں کہ اگر تم ایک بڑا بھاری قرآن کسی کے سر پر مارو جس سے اس کاسر پھٹ جائے اور وہ مرجائے تو کیا تم کو گناہ نہ ہوگا؟ ضرور ہوگا۔1باطنی تصرف وتوجہ سے کسی کو نقصان پہنچانا یا ہلاک کرنا یاد رکھو کسی کو توجہ (باطنی تصرف یا توجہ) سے ہلاک کرنا یا نقصان پہنچانا مطلقاً (ہر حال میں) جائز نہیں۔ بلکہ اس میں وہ تفصیل ہے جو میں نے بیان کی۔ مگر آج کل تو اس کو کمال سمجھا جاتا ہے کسی کو بھی اس طرف توجہ نہیں ہوتی کہ اس میں بعض دفعہ گناہ بھی ہوتا ہے۔ لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو محض توجہ کی تھی، ہم نے قتل کہاں کیا؟ سو خوب سمجھ لو کہ توجہ سے قتل کرنا بھی ویسا ہی ہے جیسے تلوار سے قتل کرنا اسی لیے ایسے موقعوں میں توجہ سے بچنا چاہیے۔ اور اگر کوئی شخص مشّاق بھی نہ ہو یعنی اس نے باقاعدہ مشق نہ کی ہو تب بھی اسے ایسے مواقع میں توجہ سے کام نہ لینا چاہیے۔ کیوں کہ بعض لوگ فطرۃً (پیدائشی طور پر) صاحبِ تصرف ہوتے ہیںمگر اس کو خبر نہ ہو تو ممکن ہے کہ اپنے