احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا وہ نمونہ دکھا سکے جو ایک بڑے بادشاہِ اسلام نے دکھا یا؟ کیا حضرت عمر ؓ اس سے ناواقف تھے کہ ایک نئے فتح ہوئے ہوئے ملک پر رعب کا قائم رکھنا کس قدر ضروری ہے؟ نہیں! وہ خوب سمجھتے تھے بلکہ جیسا وہ ان معاملات کو سمجھتے تھے ایسا کوئی نہ سمجھتا تھا، مگر اسلام کے احکام کی سچی عظمت ان کے دل میں تھی، وہ صدقِ دل سے جانتے تھے کہ ہر ایک عزت اور شوکت ان ہی راہوں پر چلنے سے ملے گی اور اگر بعد کے زمانہ میں مسلمانوں نے غلاموں اور نوکروں کے ساتھ اس طریق کے برتاؤ کو چھوڑ دیا تو یہ وہی بات ہے جو حضرت عمر ؓ نے کہی تھی۔ انھوں نے اسلامی راہوں کو چھوڑ کر اور راہوں سے عزت تلاش کی، پس وہ عزت کو کھو بیٹھے۔ اب بھی جو مسلمان غیر مسلمان اقوام کے نقشِ قدم پر چل کر دنیا میں معزز بننا چاہتے ہیں اور اسلام کی راہوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں انھیں یہی بات یاد رکھنی چاہیے۔ مگر باوجود ان عملی غلطیوں کے جن میں پچھلے مسلمان پڑگئے اور مرورِ زمانہ سے نبی کریم ﷺ کی تعلیم پر کار بند ہونے سے دور جا پڑے، یہ امر قابلِ غور ہے کہ آپ کی نیک تعلیم ایسی ان کے خونوں کے اندر رچ گئی تھی یا یوں کہو کہ آپ کی قوتِ قدسی ایسی ان پر غالب آگئی تھی کہ اس پر بھی مسلمانوں کا سلوک اپنے نوکروں اور غلاموں سے غیر اقوام کے سلوک کی نسبت بدرجہا بہتر رہا ہے اور یہ شکر کا مقام ہے کہ ہمیں اس کا ثبوت دینے کی کوئی ضرورت نہیں، خود عیسائیوں نے اس کو تسلیم کرلیا ہے۔ لین ’’الف لیلہ‘‘ کے انگریزی ترجمہ کے نوٹوں میں لکھتا ہے اور یہ وہ شخص ہے جو مدتوں مصر میں رہا اور مسلمانوں کی حالت کو غور کی نظر سے دیکھتا رہا۔ وہ کہتا ہے کہ ’’مسلمانوں میں غلاموں کے ساتھ عموماً نیک سلوک کیا جاتا ہے‘‘۔ دوسرے ممالک کی نسبت وہ لکھتا ہے کہ ’’جن سیاحوں نے دوسرے اسلامی ممالک میں سفر کیا ہے ان کی شہادت غلاموں کے ساتھ مسلمانوں کے حسنِ سلوک کے متعلق بہت ہی قابلِ اطمینان ہے‘‘۔ اور پھر لکھتا ہے کہ ’’قرآن شریف اور احادیث میں جو ہدایتیں، غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے متعلق ہیں عموماً ان سب پر یا ان کے زیادہ حصہ پر مسلمان لوگ عمل کرتے ہیں‘‘۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیم غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے متعلق عیسائیوں کے گال کے طمانچہ کی تعلیم کی طرح نہیں کہ سراہتے سراہتے ہزار ہا کاغذ سیاہ کریں اور جب اس کو دیکھیں تو ایک بھی عمل دنیامیں نظر نہ آئے۔ یہ تو ایک غیر متعصب عیسائی ہے مگر پادری ہلیو کو بھی یہ امر تسلیم کرنا پڑا ہے، جیسا کہ وہ لکھتا ہے کہ ’’مسلمانوں کے ممالک میں غلاموں کے ساتھ سلوک بہت اچھا ہے بمقابلہ اس سلوک کے جو امریکا میں کیا جاتا ہے، جہاں غلاموں کا رواج عیسائی اقوام کے نیچے رہا‘‘۔ ایسا ہی ’’انسائیکلوپیڈیا ببلیکا‘‘ میں ایک عیسائی مضمون نویس مسلمانوں کے درمیان غلامی کے رواج پر لکھتا ہے ’’شرقی اسلامی ممالک کی غلامی عموماً کھیت میں مزدوروں کی طرح کام