احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور یہ امر خدا تعالیٰ کو منظور نہیں ہے کہ اہلِ قرابت میں قطع رحم ہو، اور علی ہذا القیاس اس قسم کی قرابت داری، قریبی عورتوں کا آپس میں ایک شخص کے نکاح میں ہونا حرام ہوا۔ چناںچہ آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں: لا یجمع بین المرأۃ وعمتھا ولا بین المرأۃ وخالتہا۔ یعنی نہ ایک عورت اور اس کی پھوپھی کو جمع کرو اور نہ ایک عورت اور اس کی خالہ کو جمع کرو۔ ۵۔ اسی طرح مصاہرت باعثِ حرمت ہے، اس لیے کہ اگر لوگوں میں اس قسم کا دستور جاری ہو کہ ماں کو اپنی بیٹی کے خاوند کی طرف، اور مردوں کو اپنے بیٹوں کی بیویوں کی طرف اور اپنی بیویوں کو سوتیلے بیٹوں کی طرف رغبت ہو جو کہ حلتِ نکاح کی صورت میں محتمل ہے، تو اس تعلق کے توڑنے یا اس شخص کے قتل کرنے میں حکمت جوازِ نکاحِ مردِ مسلم یا یہودیہ یا نصرانیہ، نہ بالعکس جس کی طرف خواہش پائے کوشش کیا کریں۔ مسلمان مرد کا نکاح کسی یہودن و عیسائن سے اس لیے جائز ہے کہ خدا تعالیٰ نے مرد کو غالب اور عورت کو مغلوب قرار دیا ہے تو ایسے نکاح اور ازواج سے یہ صورت ہوگی کہ توحید کے نقشہ کو بالا اور غالب اور شرک و کفر کو پست و مغلوب کرکے دکھایا گیا، جس میںیہ ایما ہے کہ توحید شرک پر غالب ہے اور واقع میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ چوںکہ مرد کی تاثیر قوی ہوتی ہے، اس لیے عورتیں خواہ یہودن ہوں یا عیسائن وہ اکثر مسلمان ہوجاتی ہیں، مگر اس کے برعکس ہرگز نہیں ہوسکتا کہ مسلمہ عورت کا نکاح یہودی یا عیسائی مرد کے ساتھ کسی مجبوری کے سبب جائز ہوسکے، کیوںکہ یہ امر حکمتِ الٰہی کے خلاف ہے، وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا نکاح جائز ہوتا تو یہ نقشہ یوں دکھائی دیتا کہ شرک بالا اور توحید پست ہوتی اور اس امر کو خدا کی غیرت اور اس کا قانونِ قدرت و حکمت اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی عظمت و افضلیت مانع ہیں، کیوںکہ ایسے ازدواج سے افضل الرسل و خاتم الانبیائِ و سید ولد آدم ؑ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کو پست و مغلوب دکھانا پڑتا۔ سو یہ امر خدا کو منظور نہیں ہے۔ یارِ احمد شوکہ تا غالب شوی یارِ مغلوباں مشو تو اے غویباب الطلاق