احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا ہر روز پانچ مرتبہ ایک جگہ میں جمع ہونا اور پھر شانہ سے شانہ جوڑ کر اور پاؤں سے پاؤں ملا کر ایک ہی سچے معبود کے حضور میں کھڑا ہونا قومی اتفاق کی کیسی بڑی تدبیر ہے، پھر ساتویں دن جمعہ کو آس پاس کے چھوٹے قریوں اور بستیوں کے لوگ صاف اور منظّف ہو کر ایک بڑی جامع مسجد میں اکٹھے ہوا کریں اور ایک عالم ضروریاتِ قوم پر بلیغ تقریر (یعنی خطبہ) حمد و نعمت کے بعد کیا کرے، اور عیدین میں سال میں دوبار کسی قدر دور کے شہروں کے لوگ ایک فراخ میدان میں جمع ہوں اور اپنے ہادی کی ایک شوکتِ مجسم او رکثیر جماعت بن کر دنیا کو آفتابِ اسلام کی چمک دکھایا کریں، اور عمر بھر میں ایک بار اس پاک زمین میں یعنی اس فاران میں جہاں سے اولاً نورِ توحید چمکا، کل عالم کے خدا دوست حاضر ہوا کریں اور ساری بچھڑی ہوئی متفرق اُمتیں اسی دنگل میں اکٹھی ہوا کریں اور وہاں نہ اس مٹی اور پتھر کے گھر کی بلکہ اس ربّ الارباب معبود الکل کی جس نے اس ارضِ مقدسہ سے توحید کا عظیم الشان واعظ، بے نظیر ہادی نکالا حمد و ستائش کیا کریں۔ اسی طرح جماعتِ مختلفہ ہر سال اس یاد گار (بیت اللہ) کو دیکھ کر ایک نیا جوش اور تازہ ایمان دل میں پیدا کیا کریں جو بحسبِ تقاضائے فطرت ایسی یاد گاروں اور نشانوں سے پیدا ہونا ممکن ہے۔ سخت جہالت ہے اگر کوئی اہلِ اسلام جیسی مو۔ّحد قوم کو مخلوق پرستی کا الزام لگا دے۔ ایسے معترض شخص کو انسانی طبیعت کے عام میلان اور جذبات کو مدِ نظر رکھ کر ایک واجب القدر امر پر غور کرنا چاہیے کہ اگر قرآن کے پورے اور خالص معتقدین کی طبائع میں بت پرستی ہوتی تو ان کو اپنے ہادی منجی محمد مصطفیٰ ﷺ کے روضہ مقدسہ سے بڑھ کر کون سا مرجع تھا؟ اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ میں آں حضرت ﷺکا مرقدِ مبارک نہیں ہونے دیا، تاکہ توحید ِالٰہی کا پاک سرچشمہ ہر قسم کے شائبوں اور ممکن خیالات کے گرد و غبار سے پاک و صاف رہے اور مخلوق کی فوق العادۃ تعظیم کا احتمال بھی اُٹھ جائے۔نماز میں قومہ مقرر ہونے کی وجہ : چوں کہ جب آدمی سجدہ کرنا چاہتا ہے تو سجدہ تک پہنچنے کے لیے اس کو جھکنا ضرور ہوتا ہے اور وہ جھکنا رکوع نہ ہوتا بلکہ صرف سجدہ میں پہنچنے کا ذریعہ ہوتا، اس لیے ضرورت ہوئی کہ رکوع اور سجدے کے درمیان میں ایک تیسرا فعل جو ان دونوں سے جدا ہے لایا جائے، تاکہ رکوع سجدہ سے اور سجدہ رکوع سے علیحدہ ہو کر دونوں ایک مستقل عبادت ٹھہریں۔ اور ہر ایک کے لیے نفس کا ارادہ جدا ہو، تاکہ نفس کو ہر ایک کے اثر معلوم کرنے میں تنبیہ و آگاہی بھی جداگانہ ہو اور وہ تیسرا فعل قومہ ہے۔