احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علم ہے یہی نظر آتا ہے کہ زبردستوں نے مجبور کرکے زیر دستوں کو کام پر لگایا ہے اور ان سے محنتِ شاقہ کے کام لیے ہیں اور آخر جب مدت تک یہ مجبوری چلی آئی تو پھر اس قوم کی عادت میں وہ امر داخل ہوگیا۔ امرِ اوّل کے لحاظ سے آزاد آدمی لازماً جنگ پیشہ تھے اور غلام محنت کا کام کرنے والے لوگ تھے اور یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے لیے بطور معاون تھے اور ایک کا وجود دوسرے کے لیے ضروری تھا اور یوں بغیر مقابلے اور جھگڑے کے وہ دونوں ایک دوسرے کے معاون ہو کر انسانی سوسائٹی کی ترقی کے ذرائع تھے۔اسلام میں غلاموں سے سلوک : یہ ایک امر واقعی ہے جس کی تصدیق روز مرہ واقعات سے ہو رہی ہے کہ مسلمانوں میں مالک اور مملوک کا تعلق مغرب میں آقا اور نوکر کے تعلق سے بدرجہا بہتر ہے۔ جو لوگ صاحبِ مرتبہ یا صاحبِ ثروت ہیں وہ غریب لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، مگر یہ تحقیران مغربی اقوام میں سب سے بڑھی ہوئی ہے جن کو اس بات پر فخر ہے کہ ہم غلامی کے رواج سے آزاد ہوچکے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ غلامی کے نام کو انھوںنے دور کردیا ہے مگر اس کی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ ایک مہذب مغربی جب ایک غیر قوم کے آدمی کو ملازم رکھتا ہے تو وہ اسے ایک وحشی سے بھی بدتر سمجھ کر سلوک کرتا ہے، خصوصاً اس حالت میں جب ملازم کا کام ادنیٰ درجہ کا ہو، اور جہاں تک سختی اور سلوک کا سوال ہے کوئی شخص امتیاز نہیں کرسکتا کہ صاحب کا سلوک اپنے نوکر سے اچھا ہے یا قدیم زمانہ میں ایک رومی کا تعلق اپنے غلام سے اچھا تھا، شاید ہی کوئی موسمِ گرما ایسا گزرتا ہوگا جب یہ آواز ہمارے کانوں میں نہ پڑتی ہو کہ ایک غریب پنکھا قلی کو آقا نے مار مار کر صرف اس لیے ہلاک کردیا کہ اس بدقسمت کو تھک کر ذرا اونگھ آگئی تھی۔ اس حالت میں میں نہیں سمجھتا کہ رومی مالک کو وہ کون سا اختیار اپنے غلام پر حاصل تھا جو اب ایک مہذب عیسائی کو اپنے نوکر پر حاصل نہیں یا کون سی بدسلوکی وہ کرتا تھا جو اب نہیں کی جاتی اور گالیاں دینا یا معمولی طور پر مار لینا تو کوئی بات ہی نہیں۔ مہذب مغربی اقوام کو غلامی کے موقوف کرنے پر اس وقت تک فخر نہیں کرنا چاہیے جب تک کہ حقیقتِ غلامی یعنی نوکروں پر ظلم اور ان کے ساتھ بد سلوکی سے وہ نجات حاصل نہ کرلیں۔ اگر غلامی موقوف کرنے میں بڑی غرض یہ تھی کہ جو ظلم ایک مالک مملوک سے خدمت لینے میں کرسکتا ہے ان کو روکا جاوے اور ان لوگوں کو جو کہ غلام کہلاتے ہیں ان کی ذلیل حالت سے نکال کر دوسرے انسانوں کی طرح ان کو سمجھا جاوے، تو میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یورپ میں سے ابھی تک غلامی کا رواج دور نہیں ہوا اور ابھی تک وہ مقصد حاصل نہیں کیا جو اسلام اس سے تیرہ سو برس پہلے حاصل کرچکا ہے۔