احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حاجتِ بول و براز کے وقت منعِ نماز کی وجہ : ۔ نفس کے اندر وضو کا اثر اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے کہ جب نفس کو اور کاموں سے فراغت ہو اور فراغت اس وقت ہوسکتی ہے کہ جب شکم کے اندر نفخ وغیرہ سے تردّد اور اضطراب بھی نہ ہو، لہٰذا آں حضرت ﷺ نے فرمایا ہے: لا یصلي أحدکم وھو یدافعہ الأخبثان۔ یعنی تم میں سے کوئی شخص نماز کو کھڑا نہ ہو جب اس کو پاخانہ و پیشاب کی سخت حاجت ہو۔ اس میں آں حضرت ﷺ نے آگاہ فرمایا ہے کہ نفس کے کسی اور طرف مشغول ہونے میں بھی حدث کے معنی پائے جاتے ہیں، کیوںکہ ایسی حالت میں نماز کی طرف انسان کی توجہ نہیں ہوسکتی بلکہ وہ پاخانہ اور پیشاب کی مدافعت میں مشغول ہوجاتا ہے۔ ۲۔ حبسِ بول و براز سے دل میں انقباض اور پراگندگی و عدمِ حضور کا لاحق ہونا یقینی ہے اور جب حضور نہ ہو اور پراگندگی رہے تو نماز ناقص رہے گی، لہٰذا ایسے سبب کو رفع کرنے کا حکم ہوا جو نماز میں پراگندگی اور عدمِ حضور کا باعث ہو۔ چناںچہ علامہ حکیم محمد تونسی اپنی کتاب ’’کنوز الصحۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: إن حصر البول في المثانۃ مدۃ طویـلۃ مضر، تنشأہ عنہ عوارض خطرۃ، کسلسل البول والحصاۃ وغیر ذلک، فیجب علی الإنسان أن یبول کلما أحس بالبول، ولا یحصرہ مطلقا۔ ویرحم اللّٰہ القائل: ولا تحبس الفضلات عند انھضامھا ولو کنت بین المرہفات الصوارم بول کو بہت دیر تک مثانہ میں روکنا ضرر رساں ہے، اس سے خطرناک امراض: سلسل البول اور سنگِ مثانہ وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ پس انسان پر لازم ہے کہ جب بول کی حاجت ہو تو اسی وقت بول کرے اور اس کو ہرگز روک نہ رکھے۔ چناںچہ کسی نے اس بارے میںکہا ہے کہ جب فضلات ہضم ہوچکیں تو ان کو مت روکو اگرچہ تم چلتی تلواروں کے درمیان ہو۔