احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نکاح میں لانی پڑے گی۔ اب چوتھی عورت کے حمل کی شناخت بھی تین ماہ تک مقرر ہے، یہ ایک سال ہوا اور اس اثنا میں پہلی عورت جس کو وضع حمل سے تین ماہ گزر چکے ہیں تعلقاتِ زنان و شوئی کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اس طرح وضعِ حمل کے بعد ہر ایک نوبت بہ نوبت اس کے لیے مہیا ہوگی۔ پس یہ تعداد ہر ایک قوی الشہوت انسان کے لیے کافی اور عین قانونِ قدرت و فطرت کے مطابق ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ خدا تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں دو دو، تین تین، چار چار تک فرمایا ہے اس میں یہ اشارہ ہے کہ بعض آدمیوں کے لیے ہر سال میں دو عورتیں ہی کافی ہوسکتی ہیں، کیوںکہ بعض عورت کے اولاد نہیں ہوتی یا دیر سے حمل ٹھہرتا ہے اور بعض کے لیے سال میں تین ہی کافی ہوسکتی ہیں اور بعض کو چار کی ضرورت پڑتی ہے۔ حاملہ کے ساتھ منعِ صحبت کی وجہ ایک تو اندیشہ اسقاطِ حمل ہے۔ دوسرے اس حمل سے جو اولاد ہوگی اس کے اخلاق و اطوار میں والدین کے شہوانی جوش مرکوز ہو کر بد اخلاقی پیدا کریں گے، کیوںکہ جوشِ شہوت کا اثر جنین پر بالضرور پڑتا ہے اور وہ طبع میں فطری ہوجاتا ہے اور گو طبّی قاعدہ کی رو سے اس بات پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ دودھ پلانے والی سے صحبت کرنی بچہ کے لیے مضر ہے، لیکن اطبا نے اس امر کی اصلاح بعض ادویہ کے ساتھ بتائی ہے، لہٰذا یہ امر قادح نہ رہا۔1 اب رہی یہ بات کہ چار سے زیادہ کیوں نہ جائز ہوا؟ تو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضروری تھا کہ ایک خاص حد بیویاں کرنے کی ہوتی، ورنہ اگر حد مقرر نہ ہوتی تو لوگ حدِ اعتدال سے نکل کر صدہا تک بیویاں کرنے کی نوبت پہنچاتے اور ایسا کرنے سے ان بیویوں پر اور خود اپنی جانوں پر ظلم اور بے اعتدالیاں کرتے اور ضرورت چار سے رفع ہوگئی تھی، اس لیے زائد کو ناجائز قرار دیا ہے۔خلاصہ وجوہ تعددِ ازواج : ۱۔ تقویٰ۔ ۲۔ حفظ القوی۔ ۳۔ موافقت نہیں اور طلاق کا بھی موقع نہیں۔ ۴۔ عقم۔2 ۵۔ کثرتِ تولدِ بنات بعض بلاد اور خاندانوںمیں۔ ۶۔ پولیٹکل مصالح اور سیاسی ضروریات۔ عورت غالباً پچا س برس کے بعد قابلِ نسل نہیں رہتی، بخلاف مردوں کے