احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرنے کی غلامی نہیں بلکہ گھر کے کاروبار کے متعلق ہے، غلام کو خاندان کے ایک ممبر کی طرح سمجھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ محبت اور نرمی سے سلوک کیا جاتا ہے، قرآن شریف غلاموں کے ساتھ نرمی اور مہربانی سے سلوک کرنے کی روح پھونکتا ہے اور غلام آزاد کرنے کی ترغیب دیتا ہے‘‘۔ اب اس اسلامی تعلیم اور ان واقعاتِ یقینی کو پیش کرنے کے بعد میں اپنے منصف مزاج ناظرین سے یہ سوال کرتا ہوں کہ یہ غلامی جس کے رواج کو اسلام نے روک نہیں دیا، کیا یہ ایسی غلامی ہے کہ اس لفظ کے معمولی مفہوم کی رو سے جو دنیا میں سمجھا جاتا ہے اس کو غلامی کہہ سکیں؟ نہیں بلکہ جہاں تک کہ آج کل کی نوکری کے ساتھ دیکھا جاتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت دنیا میں جس قدر لوگ خادم کے نام سے موسوم ہیں وہ ایک اسلامی غلام پر رشک کریں گے، اور وہ اس خادمی کی حالت سے اس غلامی کی جہالت کو بدرجہا بہتر سمجھیں گے۔ غلامی کے معمولی مفہوم کی رو سے تو یہ کہنا بھی جائز نہیں کہ ایک حد تک بھی اسلام نے غلامی کی اجازت دی، کیوںکہ ہر ایک بدی جو اس سے پیدا ہوتی تھی اسلام کی تعلیم نے اس بدی کو جڑ سے کاٹ دیا، جو اپنے آقا کے برابر ہے اس کو غلام کیوںکہا جائے گا، اور یہ مساوات اور خاندان کے ایک ممبر کی طرح ہونا صرف لفظ ہی لفظ نہ تھے بلکہ عملی بھی ہے۔ یہ دونوں باتیں اس سے ظاہر ہوتی ہیں کہ جو کھانا آقا کھائے وہی غلام کھائے، جو لباس مالک پہنے وہی مملوک پہنے، جہاں وہ رہے اسی جگہ غلام رہے، طاقت سے زیادہ کام نہ دینا، کبھی سختی سے اسے مخاطب نہ کرنا اور نہ مارنا، اس سے بڑھ کر کون سی اصلاح کی دنیا خواہش مند ہوسکتی تھی۔ یہ زمانہ لفظ پرست ہے اور بجائے مغز کے چھلکے پر خوش ہوجاتا ہے، نام کو تو غلامی موقوف کردی گئی مگر افسوس ہے کہ غلامی کی حقیقت ابھی تک مہذب ممالک میں اسی طرح موجود ہے۔ عن قریب دنیا دیکھ لے گی کہ جب تک خادموں کے ساتھ وہ رفق اور نیکی کا طریق نہ برتا جائے گا جس کی تعلیم تیرہ سو سال ہوئے ایک انسانوں کے سچے ہمدرد اور خدا کے برگزیدوں میں سب سے بڑے برگزیدہ نے دی تھی تب تک غلامی کی موقوفی صرف لفظی موقوفی ہے، اور حقیقتاً اس سے وہ اصلاح نہیں ہوئی جو دنیا کی اخلاقی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اسلام ہی کی تعلیم وہ عملی تعلیم ہے جس پر دنیا چل سکتی ہے اور جس پر انسان انسانوںکے لیے مفید اور خدا تعالیٰ کا سچا بندہ بن سکتا ہے۔