احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۳۔ لوگوں کا عام طریق یہ ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہوتے ہیں اور تمام بندوبست ان ہی کے متعلق ہوتا ہے اور سارے خرچ مردوں ہی کے متعلق ہوا کرتے ہیں، اور عورتیں ان کی مقید ہوتی ہیں۔ چناں چہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: {اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ}1 یعنی مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس لیے کہ خدا نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ۴۔ نکاح کے اندر ولی کی شرط مقرر ہونے میں اولیا کی عزت و حرمت ہے اور عورتوں کو اپنا نکاح خود بخود کرنے میں بے عزتی ہے، جس کا مدار بے حیائی پر ہے اور اس میں اولیا کی مخالفت اور ان کی بے قدری ہے۔ ۴۔ یہ بات واجبات سے ہے کہ نکاح کو زنا کے ساتھ شہرت سے امتیاز ہو اور شہرت کی بہتر صورت یہ ہے کہ عورت کے اولیا نکاح میں موجود ہوں، البتہ کسی صورت میں ولی کا ہونا مستحب اور کسی صورت میں شرط ہے، تفصیل کے لیے فقہ کا فن ہے۔مرد پر بعض اہلِ قرابت عورتوں کے حرام ہونے کی وجہ : ۱۔ سلامتِ مزاج کا یہ اقتضا ہے کہ آدمی کو اس عورت کی جانب رغبت نہ ہو جس سے وہ خود پیدا ہوا ہے یا اس سے وہ عورت پیدا ہوئی ہے یا وہ دونوں ایسے ہیں جیسے ایک باغ کی دو شاخیں یعنی بھائی بہن۔ ۲۔ جب اقارب خود ایسی قرابت والی عورت سے نکاح کرلیا کرتے تو کوئی شخص عورتوں کی طرف سے ان اقارب سے حقوقِ زوجیت کا مطالبہ کرنے والا نہ ہوتا، باوجود یہ کہ عورتوں کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کوئی شخص ان کی طرف سے حقوقِ زوجیت کا مطالبہ کرنے والا ہو۔ اور ایسا ارتباط جس میں یہ دونوں وصف پائے جاویں یعنی رغبت نہ ہونا اور کسی کا اس سے مطالبہ نہ کرسکنا طبعی طور پر مرد اور اس کے ماں، بہن، بیٹی، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی میں واقع ہوا ہے، پس یہ سب حرام ہوئیں۔ ۳۔ اسی طرح رضاعت بھی موجبِ حرمت ہے، کیوںکہ دودھ پلانے والی عورت مثل ماں کے ہوجاتی ہے، اس لیے کہ وہ اخلاطِ بدن کے اجتماع اور اس کی صورت قائم ہونے کا سبب ہوتی ہے۔ پس وہ بھی فی الحقیقت ماں کے بعد ماں ہے اور دودھ پلانے والی کی اولاد بہن، بھائیوں کے بعد اس کے بہن بھائی ہیں۔ پس اس کا مالک ہوجانا اور اس کو اپنی زوجہ بنا لینا اور اس کے ساتھ جماع کرنا ایسی بات ہے جس سے فطرتِ سلیمہ نفرت کرتی ہے۔ ۴۔ اسی طرح دو بہنوں کا جمع کرنا حرام ہے کیوںکہ اس میں سوکن پنے کا حسد منجر بالعداوت1 ہوگا، جس سے قطع رحم ہوگا