احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تو شرعی حلالہ وہ ہے جو خود ایسے اسباب پیدا ہوجائیں کہ جس طرح پہلے خاوند نے اتفاقاً عورت کو طلاق دی تھی اسی طرح دوسرا بھی طلاق دے یا مرجائے تو عورت کا رجوع بعد عدت پہلے خاوند کی طرف بلا کراہت درست ہے۔ پس اتنی سخت رکاوٹوں کے بعد پہلے خاوند کی طرف رجوع مشروع ہونے کی وجہ بیانِ مذکور سے ظاہر و باہر ہے کہ اس میں عزت و عظمت امرِ نکاح کی اور شکر نعمتِ الٰہی کا اور اس نکاح کا دوام اور عدمِ قطع ملحوظ ہے، کیوںکہ جب خاوند کو عورت کی جدائی سے اس کے وصل ثانی تک اتنی رکاوٹیں درمیان میں حائل ہونے والی متصور ہوں گی تو وہ تیسری طلاق تک نوبت نہیں پہنچائے گا۔ إن الشارع حرمھا علیہ حتی تنکح زوجًا غیرہ؛ عقوبۃ لہ۔ ولعن المحلل والمحلل لہ؛ لِمناقضتھما ما قصدہ اللّٰہ سبحانہ من عقوبتہ۔ وکان من تمام ھذہ العقوبۃ أن طول مدۃ تحریمھا علیہ، فکان ذلک أبلغ فیما قصدہ الشارع من العقوبۃ؛ فإنہ إذا علم أنھا لا تحل لہ حتی تعتد بثلاثۃ قروء، ثم یتزوجھا آخر نکاح رغبۃٍ مقصودًا لا تحلیلٍ موجبٍ للعنۃ، ویفارقھا، وتعتد من فراقہ ثلاثۃَ قروء أخر: طال علیہ الانتظار، وعیل صبرہ، فأمسک عن الطلاق الثلاث۔ وھذا واقع علی وفق الحکمۃ والمصلحۃ والزجر۔ فکان التربص بثلاثۃ قروء في الرجعیۃ نظرا للزوج، ومراعاۃ لمصلحتہ، لما لم یوقع الثالثۃ المحرمۃ لھا علیہ، وھھنا کان تربصھا عقوبۃ لہ وزجرا لما أوقع الطلاق المحرم لما أحل اللّٰہ لہ، وأکدت ھذہ العقوبۃ بتحریمھا علیہ إلا بعد زوج وإصابۃ وتربص ثانٍ۔ایلاء کی مدت چار ماہ مقرر ہونے کی وجہ : خدا تعالیٰ فرماتا ہے: {لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍج فَاِنْ فَآئُوْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌO وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌO}1 جو لوگ اپنی بیویوں سے جدا ہونے کے لیے قسم کھا لیتے ہیں ان کے لیے چار مہینے کا انتظار ہے، سو اگر وہ اس چار ماہ کے عرصہ کے اندر اپنے ارادہ سے باز آجاویں (اور رجوع کرلیں) تو خدا تعالیٰ غفور رحیم ہے اور اگر طلاق دینے پر پختہ ارادہ کرلیں (اسی طرح سے کہ رجوع نہ کریں) تو (یاد رکھیں کہ) خدا سننے اور جاننے والا ہے۔ ایلاء کے معنی قسم کھانے کے ہیں، اہلِ جاہلیت اس بات کا حلف یعنی قسم کھایا کرتے تھے کہ اپنی بیویوں سے کبھی یا ایک مدتِ دراز تک جدا رہیں گے۔ اس میں عورتوں پر نہایت ظلم اور ضرر تھا، لہٰذا خدا تعالیٰ نے چار مہینے سے زیادہ مدت ایلاء کی منسوخ فرما دی۔ اور اس ایلاء کی مدت چار مہینے مقرر ہونے میں