احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تقررِ عیدین کی وجہ : ہر قوم میں کچھ دستور اور رسمیں اور عادتیں ہوتی ہیں، من جملہ ان کے میلے بھی ہیں، جن کا تمام متمدن اور غیر متمدن قوموں میں رواج ہے۔ میلے کے دن خوراک، لباس و ملاقات میں خاص اور نمایاں تبدیلی ہوتی ہے اور یہ فطرتی چیز تھی، مگر اس میں بڑھتے بڑھتے ہوا وہوس کو بہت دخل ہوگیا، بہت میلے تجارت کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں، چناںچہ ہندوستان میں تجارت کے ایسے بہت سے میلے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ہر ہفتہ کسی نہ کسی گاؤں میں میلا ہوتا ہے۔ بعض میلوں میں جانوروں کو جمع کرتے ہیں، جسے منڈی کہتے ہیں۔ غرض کہ ان میلوں کی تہہ میں عجیب عجیب مقاصد کام کر رہے ہیں۔ بعض تو اپنے گزارے کے لیے میلا لگاتے ہیں اور بعض خاص چندے اور نذر و نیاز کے لیے اور بعض محض اپنی عظمت اور شان کے اظہار کے لیے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کے جہاں بڑے بڑے احسانات ہیں ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے ان میلوں کی اصلاح کردی ہے، چوںکہ یہ ایک فطرتی بات تھی اس لیے ان کو اصل سے ضائع نہیں کیا، صرف اصلاح کردی اور وہ یوں ہے کہ آپ نے جہاں اور قسم کے رسم و رواج کو اللہ تعالیٰ کی تعظیم و مشقت علی خلق اللہ کے تحت میں لے لیا وہاں ان میلوں میں بھی یہی بات پیدا کردی۔ چناںچہ عید میں آپ نے اوّل تکبیر کو لازم ٹھہرایا اور خدا تعالیٰ کی تعظیم کے اظہار کے لیے وہ لفظ مقرر کیا جس سے بڑھ کر کوئی لفظ نہیں ہے۔ صفات میں ’’اکبر‘‘ سے بڑھ کر کوئی لفظ نہیں ہے اور جامع جمیعِ صفاتِ کاملہ ہونے کے لحاظ سے ’’اللہ‘‘ سے بڑھ کر اس مفہوم کی جامعیت کو کوئی لفظ ظاہر نہیں کرسکتا، یہ تو تعظیم لامر اللہ ہے اور مخلوق پر شفقت کرنے کے لیے رمضان کی عید میں صدقہ فطر کو لازم ٹھہرایا، یہاں تک کہ نماز میں اس وقت جائے کہ اوّل اس کو ادا کرے، اصل سنت یہی ہے اور پھر بعض مواقع میں یہ صدقہ خاص جگہ جمع کرے تاکہ مساکین کو یقین ہوجاوے کہ ہمارے حقوق کی حفاظت کی جاوے گی اور عید قربان میں مساکین وغیرہم کے لیے سید الطعام لحم یعنی گوشت کی مہمانی مقرر فرمائی۔ یہ چیزیں آں حضرت ﷺ نے اس بات کے لیے کی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کے جو فرائض انسان پر ہیں اور جو فرائض مخلوق کے ہیں ان کو پورا کریں۔ دنیا کے کسی میلہ کو دیکھ لو کہ ان میں ان حقوق کی حفاظت اور یہ حکمت کی باتیں نہیں پائی جاتی ہیں جو عیدین میں ہیں۔تقرر عیدِ قربان کی وجہ : عبادات کے اوقات مقرر ہوتے ہیں یہ بھی حکمت ہے کہ اس وقت میں انبیا ؑ نے جو طاعت و عبادتِ الٰہی کی ہو اور خدا تعالیٰ نے اس کو قبول کرلیا ہو اس وقت کے آنے سے ان کی جاں نثاری یاد آ کر اس عبادت کی