احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے لیے قرار دیا جاتا تو عبادت کو عادت سے اور حکمِ شرع کو مقتضائے طبع سے امتیاز نہ ہوتا۔ اسی واسطے نمازِ تہجد اور وقتِ تلاوت اور مناجات شب کو قرار دیا گیا۔ہر سال میں ایک مہینہ روزوں کے لیے مخصوص ہونے کی وجہ : ۔ چوںکہ روزہ کی روزانہ پابندی ہمیشہ کے لیے تمام لوگوں سے باوجود تدابیرِ ضروریہ اشتغال باہل و اموال ممکن نہ تھی، لہٰذا یہ ضروری ہوا کہ کچھ زمانے کے بعد ہر مرتبہ ایک مقدارِ معین کا اہتمام و التزام کیا جاوے، جس سے قوتِ ملکی کا ظہور ہوجائے اور اس سے بیشتر جو اس میں کمی ہوئی ہے اس سے اس کا تدارک ہوجائے اور اس کا حال اس گھوڑے کا سا ہوجاوے جس کی پچھاڑی اگاڑی میخ سے بند ھی ہوتی ہے اور وہ دو چار بار اِدھر اُدھر لاتیں چلا کر پھر اپنی اصلی تھان پر آن کھڑا ہوتا ہے۔ ۲۔ یہ بات ضروری ہے کہ روزہ کی ایک مقدار مقرر کی جاوے تاکہ کوئی شخص اس میں افراط و تفریط نہ کرسکے۔ لہٰذا امورِ مذکورہ کے لحاظ سے یہ بات ضروری ہوئی کہ ایک مہینہ تک ہر دن برابر کھانے اور پینے اور جماع کرنے سے نفس کو باز رکھنے کے ساتھ روزہ کا انضباط کیا جاوے، کیوںکہ ایک دن سے کم مقدار کا مقرر کرنا تو ایسا ہے جیسا کہ دوپہر کے کھانے کو کچھ دیر کرکے کھانا اور اگر رات کو ان اُمور کے ترک کرنے کا حکم دیا جاتا تو لوگ اس کے عادی نہیں ہوتے، اس کی وجہ سے ان کو کچھ پروا نہ ہوتی اور ہفتہ اور دو ہفتہ ایسی قلیل مقدار ہے جس کا نفس پر چنداں اثر نہیں ہوتا اور دو مہینے کی ایسی مقدار ہے کہ اس میں آنکھیں گڑ جاتیں اور نفس تھک کر رہ جاتا۔ ان اُمور سے روزہ کے لیے یہ بات ضروری ہوئی کہ طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک دن کا انضباط کیا جاوے، کیوںکہ عرب اسی کو دن شمار کرتے ہیں۔ ۳۔ چوںکہ روزہ تمام قسم کے نفسانی زہروں کے دفع کرنے کے واسطے ایک طرح کا ۔ِتریاق ہے اور اس میں طبیعت کو تکلیف بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا بقدرِ ضرورت اس کی ایک معین مقدار ہونی چاہیے، جوںکہ نہ اتنی کم ہو جس سے کچھ فائدہ ہی نہ ہو اور نہ اس قدر افراط کردی جائے کہ اس سے اعضا میں ضعف آجائے اور دلی فرحت جاتی رہے اور نفس کمزور ہوجائے اور انسان بالآخر اس محنت سے قبر ہی میں جلدی نہ چلا جائے، اور یہ معتدل مقدار وہی ہے جو مشروع ہوئی۔ پھر کھانے پینے میں کمی کرنے کے دو طریقے ہیں: ایک تو یہ کہ مقدار میں تھوڑا سا استعمال کرے۔ یہ طریقہ تو عام قانون کے تحت میں بمشکل آ سکتا ہے، اس لیے کہ لوگوں کے مختلف درجے ہیں، کوئی تھوڑا کھاتا ہے اور جتنے طعام سے ایک شخص سیر ہوجاتا ہے دوسرا بھوکا رہتا ہے، سو اس میں انضباط نہ ہوتا اور ہر شخص بہت کھا کر کہہ دیتا کہ میں نے اپنی بھوک سے کم کھایا ہے۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ کھانے کے درمیان جو فاصلہ ہوتا ہے وہ معمول سے زیادہ ہو، یہی طریقہ شریعت میں معتبر ہے،