احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
باب المسح علی الخفین مسحِ موزوں کا راز : چوں کہ وضو کا ان اعضائے ظاہرہ کے دھونے پر مدار تھا جو ۔َجلد ۔َجلد گرد و غبار میں آلودہ ہوتے رہتے ہیں اور پاؤں موزوں کے پہننے سے اعضائے باطنہ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اور نیز عرب میں موزوں کے پہننے کا بہت دستور تھا اور ہر نماز کے وقت ان کے اتارنے میں ایک قسم کی د۔ّقت تھی، اس واسطے فی الجملہ ان کے پہننے کی حالت میں پاؤں کا دھونا ساقط کردیا گیا اور حکم دیا کہ موزے کے اوپر مسح کیا کریں، تاکہ پیروں کا دھونا یاد آجاوے، کیوںکہ مسح بھی پیروں کے دھونے کا ایک نمونہ ہے۔موزہ کے نیچے کی جانب مسح مشروع نہ ہونے کی وجہ : اگر مسحِ موزہ نیچے کی جانب مشروع ہوتا تو بڑا حرج تھا، کیوںکہ نیچے کی جانب مسح کرنے میں زمین پر چلتے وقت گرد سے موزوں کے آلودہ ہونے کا گمان غالب ہے، لہٰذا عقل کا مقتضی یہی ہے کہ اوپر کی جانب مسح کیا جاوے۔موزہ پر مسح مقیم کے لیے ایک دن رات اور مسافر کے لیے تین دن رات مقرر ہونے کی حکمت : جہاں آسانی کردی گئی ہے وہاں کوئی ایسی چیز بھی مقرر کی گئی ہے کہ جس کی وجہ سے نفس کو عبادتِ مطلوبہ کے ترک کرنے میں مطلق العنانی نہ ہوجاوے۔ لہٰذا شارع ﷺ نے اس بات کے حاصل کرنے کے لیے ایسی چند باتیں مسحِ موزہ کے ساتھ بھی مقرر کردیں، مثلاً: ایک تو مسح کی مدت مقیم کے لیے ایک دن رات اور مسافر کے لیے تین دن رات مقرر فرمائی، اس لیے کہ ایک دن رات کی ایسی مدت ہے کہ اس کا التزام اور انتظام ہوسکتا ہے، بہت سی چیزوں کو جن کا التزام کرنا چاہتے ہیں اسی مدت کے ساتھ اس کا التزام رکھتے ہیں اور تین دن رات کی مدت بھی ایسی ہی ہے۔ یہ دونوں مدتیں مقیم و مسافر پر ان کی رفعِ حرج اور تکلیف کے موافق تقسیم کردی گئی ہیں، پھر شارع ﷺ نے اس میں یہ دوسری شرط لگا دی کہ موزوں کو طہارت کی حالت میں پہنا ہو، تاکہ پہننے والے کے دل میں اس وقت کی طہارت کا نقشہ جما رہے، اس لیے کہ موزوں کی