احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طرف رغبت ہو، پس یہ عید الاضحیٰ کا دن وہ دن ہے کہ حضرت ابراہیم ﷺ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ﷺ کو بحکمِ پروردگار خدا تعالیٰ کے حضور میں ذبح کرکے پیش کرنے کا ارادہ فرمایا تھا اور خدا تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ﷺ کی جان کے بدلہ میں ایک ذبیحہ عظیمہ عنایت کیا، اس لیے اس عید میں قربانی اس مصلحت سے مقرر کی گئی کہ اس میں ملتِ ابراہیمی کے ائمہ کے حالات اور ان کے جان ومال کو خدا تعالیٰ کی فرماں برداری میں خرچ کرنے اور ان کی غایت درجہ صبر کرنے کی یاد دہانی کرکے لوگوں کو عبرت دلائی گئی ہے اور نیز حاجیوں کے ساتھ تشبیہ اور ان کی عظمت ہے اور جس کام میں وہ حجاج مصروف ہیں اس کی طرف دوسرے لوگوں کو ترغیب ہے۔عیدین میں نماز اور خطبہ مقرر ہونے کی وجہ : عیدین میں خطبہ اور نماز اس لیے مقرر ہے کہ مسلمانوں کا کوئی اجتماع ذکرِ الٰہی اور شعائرِ دین کی تعظیم اور جلالِ الٰہی کے استحضار سے خالی نہ ہو۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ ہر قوم کے لیے ایک دن مخصوص ہوتا ہے کہ اس میں اپنے تجمل کا اظہار کرتے ہیں اور خوب زیب و زینت کے ساتھ اپنے شہروں سے باہر نکلتے ہیں، یہ ایسی رسم ہے کہ اس سے کوئی قوم عرب و عجم میں خالی نہیں ہے۔ جب آں حضرت ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو ان کے بھی دو دن ایسے مقرر تھے کہ وہ ان میں لہو و لعب یعنی کھیل کود کرتے تھے، تب آپ نے فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ نے بجائے ان دنوں کے اور دو بہتر دن دے دیے ہیں اور وہ یومِ اضحی اور یومِ فطر ہیں‘‘۔ اور ان کے تبدیل کرنے کی یہ ضرورت ہوئی کہ لوگوںمیں جو دن خوشی کا ہوتا ہے مقصود اس سے کسی نہ کسی دین کے شعائر کا اظہار یا کسی مذہب کے اکابر کی موافقت یا اس قسم کی بات ہوتی ہے۔ اس سے آں حضرت ﷺ کو خیال ہوا کہ اگر ان کو آپ نے اسی حالت پر چھوڑ دیا تو ایسا نہ ہو کہ اس میں جاہلیت کی کسی رسم کی تعظیم یا جاہلیت کے اسلاف کے کسی طریقہ کی ترویج ان کو مقصود ہو، اس لیے آپ نے بجائے ان دنوں کے ایامِ عیدین کو مقرر فرمایا کہ ان میں ملتِ ابراہیم حنیف کے شعائر کی عظمت ہے اور آپ نے اس دن کے تجمل کے ساتھ ذکرِ خدا اور دیگر عبادات کو بھی ملا دیا کہ مسلمانوں کا کوئی اجتماع صرف لہو و لعب نہ ہو بلکہ ان کے اکٹھے ہونے سے اعلائے کلمہ اسلام ہو، لہٰذا تکبیر کہنا بھی مسنون کیا گیا، چناںچہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰکُمْ}1