احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پیدل چلوں، مگر آپ نے نہ مانا اور کچھ دیر تک نصیحت کرتے ہوئے اسی طرح ساتھ گئے۔ جب حضرت عمرو نے مصر کی فتح کا ارادہ کیا تو اوّل صلح کا پیغام دے کر ایک جماعت حاکمِ مصر کے پاس بھیجی جس کا سردار عبادہ ؓ کو قرار دیا جو حبشی تھے اور حبشی اس زمانہ میں بطورِ غلاموں کے فروخت ہوتے تھے۔ جب یہ جماعت حاکمِ مصر کے سامنے آئی تو اس نے کہا کہ اس حبشی کو باہر نکال دو۔ انھوں نے کہا کہ یہی تو ہمارا سردار ہے اور جو کچھ یہ کہے گا یا کرے گا اس کے ہم پابند ہیں۔ مقوقس حیران ہوا اور پوچھا: تم نے ایک حبشی کو اپنا سردار کیوں کر بنالیا؟ انھوںنے کہا: سرداری ہمارے درمیان قومیت یار نگ پر نہیں بلکہ فضیلت پر ہے، سو یہ ہم سب میں سے افضل ہے۔ حضرت عمر ؓ جیسے بادشاہ کا سلوک جو اپنے غلاموں سے تھا وہ ظاہر کرتا ہے کہ ابتدائی اسلامی سوسائٹی میں غلاموں کی کیا حیثیت تھی اور وہ لوگ کس طرح پر اپنے پیارے نبی ﷺ کے لفظوں پر عمل کرتے تھے۔ جب حضرت ابو عبیدہ ؓ نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور شہر کے لوگ تنگ آگیے تو انھوں نے اس شرط پر شہر حوالے کردینے کا وعدہ کیا کہ خود حضرت عمر آکر شرائط صلح طے کریں۔ ابوعبیدہ ؓ امیر المؤمنین کو لکھا تو آپ فی الفور روانہ ہوگئے۔ آپ کے ساتھ آپ کا غلام بھی تھا، مگر سواری کے لیے اونٹ صرف ایک ہی تھا، اس لیے خلیفہ اور غلام باری باری اس پر چڑھے اور جس کی باری نہ ہوتی وہ پیدل ہمراہ دوڑتا۔ جب آپ ابوعبیدہ ؓ کے ڈیرے کے قریب پہنچے تو اتفاقاً غلام کی باری سواری کی آگئی، آپ اتر کھڑے ہوئے اور غلام کو سوار کیا اور آپ پیدل ہمراہ بھاگتے تھے اور تمام نظریں آپ کی طرف لگی ہوئی تھی۔ ابو عبیدہ ؓ نے اس بات سے ڈر کر کہ امیر المؤمنین کو اس طرح پیدل بھاگتا ہوا دیکھ کر یروشلم کی اہالی پر برا اثر نہ ہو اور مبادا جنگ رخ پلٹ دے، عرض کیا: تمام نظریں آپ کی طرف لگی ہوئی ہیں، اس صورت میںیہ مناسب نہیں کہ آپ کا غلام تو سوار ہو اور آپ نوکروں کی طرح ساتھ ساتھ بھاگیں۔ حضرت عمر ؓ اس بات کو سن کر غضب میں آئے اور فرمایا کہ تجھ سے پہلے مجھے ایسے کسی نے نہیں کہا۔ ہم سب لوگوں سے زیادہ ذلیل اور حقیر اور سب سے تھوڑے تھے، خدا نے اسلام کے ذریعے ہمیں بڑائی اور عزت دی اور اگر ہم ان راہوں سے جو کہ اسلام نے ہمیں سکھائی ہیں الگ چل کر عزت تلاش کریں گے تو پھر خدا ہمیں ذلیل کرے گا۔ جس سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ اسلام نے تعلیم دی ہے کہ تم اپنی عزت اسی میں سمجھو کہ اپنے غلاموں کو اپنے برابر رکھو، اگر ہم اس مساوات میں اپنی ذلت سمجھنے لگیں گے تو پھر خدا ہمیں ذلیل کرے گا، کیوںکہ اس کی بتائی ہوئی راہ کو ہم چھوڑیں گے۔ میں پوچھتا ہوں کہ آیا آج بھی دنیا میں کوئی ایسا فاتح موجود ہے یا کوئی چھوٹی سے چھوٹی ریاست کا حکمران ایسا موجود ہے یا کوئی شخص جو کسی بڑے عہدہ پر ممتاز ہو ایسا ہے کہ وہ ایسی اخلاقی جرأت دکھا سکے جو حضرت عمر ؓ نے دکھائی؟ یا نیک سلوک