احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔ ۳۔ خدا کی عظمت کے خیال کرنے کے بعد جو اپنے نفس کی تحقیر کی کیفیت اپنے دل پر طاری ہونی چاہیے عالمِ اجسام میں اس کیفیت کے قائم مقام اور اس کے مقابلہ میں اگر ہے تو جھک جانا ہے، جس کو اصطلاحِ اسلام میں رکوع کہتے ہیں۔ اور اس کے علوِ مراتب غیر متناہیہ کے اعتقاد کے بعد جو اپنی پستی کے خیال کی کیفیت دل میں پیدا ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں اور اس کے قائم مقام اس بدن کے احوال و افعال میں اگر ہے تو یہ ہے کہ اپنا سر اور منہ جو کہ محلِ عزت سمجھے جاتے ہیں زمین پر رکھے اور ناک اس کے خاکِ آستانہ پر رگڑے، اس کو اسلام میں سجدہ کہتے ہیں۔ ۴۔ نماز میں انسان کو خدا تعالیٰ کے رو برو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آدابِ خدمت گار ان میں سے ہے، یہ نماز کا پہلا حصہ ہے۔ پھر رکوع جو دوسرا حصہ ہے یہ بتلاتا ہے کہ وہ تعمیلِ حکمِ الٰہی کو کس قدر گردن جھکاتا ہے، اور سجدہ جو تیسرا حصہ ہے کمالِ ادب اور کمالِ تذلل اور نیستی کو جو کہ عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے، کہ آداب اور طریق میں جو خدا تعالیٰ نے بطورِ یاد داشت کے مقرر کیے ہیں اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے۔نماز میں دو سجدے مقرر ہونے کی وجہ : سجدۂ اوّل نفس کو اس بات پر متنبہ کرنے کے لیے ہے کہ میں اس خاک سے پیدا ہوا ہوں اور دوسرا سجدہ اس بات پر دال ہے کہ میں اسی خاک میں لوٹ جاؤں گا۔سورۂ فاتحہ نماز کی ہر رکعت میں پڑھنے کی حکمت : انسان کا خاصہ ہے کہ اس کے دل پر کسی واعظ کی نصیحت کا اثر ایک ہی بار میں کچھ نہیں پڑتا، اسی طرح انسان کے دل کا زنگ جو کہ اسے محسوسات میں لگائے رکھنے سے پیدا ہوجاتا ہے ایک دفعہ کے تذکار سے دور نہیں ہوتا۔ قانونِ قدرت میں بھی محسوسات میں جو زنگ زدہ اشیا ہیں، وہ ایک دفعہ کے مصقلہ پھیرنے سے روشن اور چمک دار نہیں ہوتیں، اسی طرح سورۂ فاتحہ بھی بڑی بڑی روحانی بیماریوں کے زنگ کا مصقلہ تھی، اسی واسطے ایک نماز میں یہ کئی بار پڑھی جاتی ہے۔پنج گانہ جماعت و جمعہ و عیدین و حج کی عبادات میں اہلِ اسلام کے جمع ہونے کی حکمتیں : قرب و جوار کے لوگوں