احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مقتضی ہے کہ جب پاؤں پر موزے نہ پہنے ہوں تو ان کو وضو میں دھونا ہی لازم ہے، کیوں کہ ننگے پاؤں پر گرد و غبار و اجرام پڑتے اور جمتے رہتے ہیں، اس لیے بحالتِ برہنگی ان کا دھونا ہی فرض ہے۔ ہم قبل ازیں لکھ چکے ہیں کہ اطرافِ بدن کے انداموں کے دھونے کا امر اس لیے بھی ہوا کہ جسم کے اندرونی حصہ کے زہریلے مواد خارج ہو کر ان میں جمع ہوتے رہتے ہیں اور ان کی ۔ّسمیت جوش مار کر خطرناک امراض کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، اور دھونے سے جوشِ ۔ّسمیت دھیما پڑ جاتا ہے یا کہ از راہِ مسامات خارج ہوجاتا ہے۔ اور جب برہنہ اطرافِ بدن کو دھویا نہیں جاتا تو گرد و غبار پڑنے سے مسامات بند ہوجاتے ہیں اور مسامات کے بند ہونے سے زہریلے مواد پھر اندر کی طرف جا کر موجبِ ایذا و درد ہوتے ہیں۔ پس عدمِ موزہ کی حالت میں دھونا مقرر ہوا تاکہ اس برہنگی میں جو اجرامِ خبیثہ اور گرد و غبار جمع ہوا ہے وہ زائل ہوجاوے، جیسا اس سرخی میں اوّل بیان ہوا۔ اور موزہ کی دواماً اجازت نہ ہوئی، تاکہ جو خبیث مادّے باطن سے ظاہر کی طرف آ کر جمع ہوئے ہیں وہ زائل ہوجاویں، جیسا اس سرخی میں دوسری حکمت بیان کی گئی ہے۔ اور یہ دونوں فائدے پاؤں پر مدام موزہ رکھنے میں کہ اس حالت میں وہ کبھی نہ دھلتا یا پاؤں پر محض تھوڑے پانی سے مسح کرنے میں حاصل نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ مسحِ موزہ کی انتہائی مدت تین دن رات سے زیادہ مقرر نہیں ہوئی، بلکہ موزہ پر مسح کرنے والے مقیم کو تو ہر ایک دن اور رات کے بعد اور مسافر کو ہر تین دن اور رات کے بعد دھونے کا امر ہوا۔ نیز محض مسح صرف توبہ وا نابت کی طرف تو توجہ دلاتا لیکن دھونے میں تقویتِ دماغ اور صفائیِ جلد و انکشافِ مسامات بھی مقصد ہے۔ خلاصہ یہ کہ اگر پاؤں پر صرف مسح ہی ہوتا تو اور جو باقی اہم مقصود ہیں وہ حاصل نہ ہوتے۔طہارت معنوی پر عام نظر : اخلاقِ فاسدہ و اوہامِ باطلہ سے پاک رہنے کا سبق سکھانا اسلام کا خاصہ ہے، کیوں کہ اوہامِ باطلہ و اعمال و اخلاقِ فاسدہ نفسِ انسانی کو ایسے گندہ کرنے والے ہیں جیسے انسانی جسم غلاظتوں اور نجاستوں سے ناپاک ہوجاتا ہے، اس لیے اسلام نے ان سب سے پاک و صاف ہونے کا امر فرمایا۔ اسی طہارتِ معنوی میں یہ بھی داخل ہے کہ شہوتِ بے جا و حرصِ نفسانی کی آلودگی اور رؤیتِ نفس یعنی خود بینی سے پاک و صاف ہوجاوے کہ اس حکمِ الٰہی میں تمام لوگوں کے ساتھ شامل ہونے سے انسان کو اپنے اور دوسرے کے درمیان مساوات اور برابریٔ حقوق کا پتا ملتا ہے خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ہو۔ اسی طرح کسی کی حق تلفی نہ کرنا بھی طہارتِ معنوی میں داخل ہے اور طہارتِ جسم میں اس طہارتِ باطن کی طرف بھی اشارات ہیں۔ چناںچہ مختصراً