احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دینے والا رجعی طلاق میں رجوع کرلے تو زوجہ مانع نہ ہو۔ اور زوجہ کا حق خاوند پر نفقہ و سکونت کا مہیا کرنا ہے۔ اور حق بچے کا یہ ہے کہ اس کے نسب کا ثبوت ہوجاوے اور وہ اپنے باپ سے ملحق ہو اور دوسرے سے ملحق نہ ہو۔ اور دوسرے خاوند کا حق یہ ہے کہ وہ بصیرت و براء تِ رحم کا علم ہونے کے بعد عورت سے دخول کرے، مبادا رحم میں پہلے شخص کا بچہ ہو اور اس طرح سے اختلاطِ نسب ہوجاوے۔ پس مطلقہ کے لیے تین حیض مقرر کرنا ان حقوق کے مجموعہ کی رعایت و تکمیل کے لیے ہے کہ ان میں بعض حقوق ایک حیض میں حاصل نہیں ہوسکتے۔ اور عدتِ طلاق میں جو حقوق بیان کیے ان میں بعض طلاق و وفات میں مشترک بھی ہیں، چناںچہ تأمل سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ پس اس تقریر سے اس وعدہ کا بھی ایفا ہوگیا جو شروع سرخی کے قریب کہا گیا تھا کہ تفصیل عن قریب آتی ہے۔حرمتِ نکاحِ متعہ کی وجہ : ۱۔ متعہ کی رسم جاری ہونے سے نسب کا خلط ملط ہونا اور اس کی تباہی و بربادی لازم آتی ہے، کیوںکہ اس مدتِ متعہ کے گزرتے ہی وہ عورت خاوند کے قبضہ سے خارج ہوجاتی ہے اور عورت کو اپنا اختیار ہوتا ہے، اب معلوم نہیں کہ وہ جب حاملہ ہوگی تو کیا کرے گی اور عدت کا انضباط نکاحِ صحیح میں بھی جس کی بنا ہمیشگی پر ہوتی ہے نہایت دشواری سے ہوتا ہے تو پھر متعہ کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ ۲۔ اس رسم میں یہ قبح بھی ہے کہ اس رسم کے جاری ہونے سے نکاح صحیح جو شریعت میں معتبر ہے اس میں اہمال لازم آتا ہے، کیوںکہ اکثر نکاح کرنے والوں کی خواہش غالباً شہوتِ شرم گاہ کا پورا کرناہوتا ہے۔ ۲۔ صرف جماع کی اجرت دینا طبیعتِ انسانی سے بالکل انسان باہر ہوجاتا ہے اور بے حیائی ہے، اس کو قلب سلیم بالکل پسند نہیں کرتا۔ باقی باوجود ان قبائح کے ابتدا میں چندے اس کی اجازت ہونا جوش سے بے حد اضطرار اور نکاح پر قادر نہ ہوسکنے سے تھا، جیسا میۃ کی مخمصہ میں اجازت ہوجاتی ہے، پھر ان قبائح کے سبب ہمیشہ کے لیے منسوخ ہوگیا۔احادیث سے متعۃ النساء کی حرمت : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِيْ عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سَبْرَۃَ الْجُہَنِيُّ، أَنَّ