احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کی وجہ : ۔ قرآن خود اس بھید سے آگاہ فرماتا ہے: {وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِط}3 اور نہیں کیا تھا ہم نے وہ قبلہ جس پر تو تھا مگر اس لیے کہ ظاہر ہوجاوے کہ کون رسول کے تابع ہے اس سے جو کہ پھر جاتا ہے اپنی ایڑیوں پر۔ ۲۔ یہ بہت صاف امر ہے اور حقیقت شناس عاقل کے نزدیک کچھ بھی محلِ اعتراض نہیں، اس ہادی کو تمام دنیا کے متداولہ عبادت کو خالص کرنا منظور تھا، اور ایک واضح اور ممتاز مسلک قائم کرنا ضرور اس لیے واجب ہوا کہ وہ اپنی اُمت کے رخِ ظاہر کو بھی ایسی سمت کی طرف پھیرے جس میں قوائے روحانی کی تحریک ہو۔ ۳۔ اس میں اتفاق و اتحادِ قومی کا فائدہ ہے، اس لیے سب کو حکم ہوا کہ ایک دل ہو کر معبود حقیقی کی عبادت کریں۔ ہر ایک مسلمان کو یقین ہے کہ مکہ میں بیت اللہ کو توحید کے بڑے واعظ نے تعمیر کیا اور آخری زمانہ میں اسی کی اولاد میں سے ایک زبردست کامل نبی مکمل شریعت لے کر ظاہر ہوا، جس نے اسی پہلی تلقین و تعلیم کو پھر زندہ اور کامل کیا۔ پس نماز میں جب ادھر کو رُخ کرتے ہیں یہ تمام تصورات آنکھوں میں پھر جاتے ہیں اور مصلحِ عالم کی تمام خدمات اور جاں فشانیاں جو اس نے اعلائے کلمۃ اللہ میں دکھلائیں یاد آجاتی ہیں۔ ۴۔ خانہ کعبہ کو اسلام والے بیت اللہ کہتے ہیں اور بالکل ظاہر ہے کہ کوئی شخص کسی کے مکان کو جاتا ہے تو اس کا مطلب مکان والا ہوا کرتا ہے۔ کسی تخت نشین بادشاہ اور بزرگ کے آداب و نیاز اس کے تخت کے آداب نہیں ہوا کرتے۔ ۵۔ اس میں اظہار کی حکمت بھی مذکور ہے کہ یہ کامل مذہب، یہ توحید کا آفتاب اسی پاک زمین سے نمودار ہوا۔ اس استقبال سے وہ خداوندی حکمت بحال رکھی گئی، ورنہ اہلِ اسلام کا عقیدہ تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات مکان اور جہت کی قید سے منزہ ہے اور عنصری و کونی صفات سے اعلیٰ اور مبرا ہے، کوئی جہت نہیں جس میں وہ مقید ہو، کوئی خاص مکان نہیں جس میں وہ رہتا ہو، اسی مطلب کی طرف قرآن شریف اشارہ کرتا ہے اور معترض کے اعتراض کو پہلے ہی اپنے علم محیط سے رد کردیا ہے: {وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُق فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِط}1