احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے ایک وارنٹ جاری ہو، یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلی اور خوش حالی میں خلل ڈالا۔ سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے، کیوںکہ اس سے اپنی خوش حالی کے زوال کے مقدور ہونے پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مقابل پر نمازِ ظہر متعین ہوئی، جس کا وقت زوالِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے، تاکہ جس کے قبضہ میں وہ زوال ہے اس کی قدرت کو یاد کرکے اس کی طرف توجہ کی جاوے۔ آں حضرت ﷺ نے زوال کی ساعت کی نسبت فرمایا ہے کہ ’’اس میں آسمان کے دروازے کھلتے ہیں، اس لیے میں پسند کرتا ہوں کہ اس وقت میرا کوئی عمل آسمان کی طرف صعود کرے‘‘۔ نیز اس وقت کے تغیر کا بھی یہی مقتضا ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف توجہ کی جاوے، چناںچہ اس تغیر کے آثار جو جسمِ انسانی پر ظاہر ہوتے ہیں طبیبوں نے اپنی طبی کتابوں میں بیان فرمائے ہیں۔ چناںچہ ’’مفرح القلوب شرح قانونچہ‘‘ میں لکھا ہے کہ نوم بعد زوال کہ مسمی است بہ حیلولہ- لکونہ حائلا بین النائم والصلاۃ- محدث نسیان است۔ (یعنی دوپہر کے بعد نیند جس کو حیلولہ کہتے ہیں نسیان کا مرض پیدا کرتی ہے) اور حیلولہ اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ سونے والے اور نماز کے درمیان حائل ہوجاتی ہے۔ سو اس تغیر سے بچنے کے لیے بھی بجائے نوم کے اشتغال بالطاعۃ مصلحت ہے۔ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنے کی حکمت : آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں: إذا اشتد الحر فأبردوا بالظہر؛ فإن شدۃ الحر من فیح جھنم۔ یعنی جب سخت گرمی ہو تو ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھا کرو، کیوں کہ گرمی کی شدت جہنم کا جوش ہے۔ اس سے یہ مطلب ہے کہ جنت و جہنم کا خدا تعالیٰ کے ہاں خزانہ ہے، اس خزانہ میں اس عالم میں کیفیاتِ مناسبہ اور منافرہ کا فیضان ہوتا رہتا ہے۔وجہ تعیینِ نمازِ عصر : ۔ دوسرا تغیرا س وقت تم پر آتا ہے کہ جب کہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کیے جاتے ہو، مثلاً: