احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
والرمۃ، ونھی أن یستطیب الرجل بیمینہ۔ سو قضائے حاجت کے وقت قبلہ رو ہو کر نہ بیٹھنے اور داہنے ہاتھ سے استنجا نہ کرنے کی وجہ کا ذکر تو قبل ازیں لکھا گیا ہے، اب بقیہ اجزائے حدیث کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ۱۔ استنجا کے لیے تین ڈھیلے اس لیے مقرر فرمائے کہ صفائی کے لیے ایک حد کا مقرر کرنا ضروری تھا، ورنہ وہمی آدمی سارا سارا دن استنجا ہی کرنے میں گزار دیتے۔ باوجود اس قدر تاکیدِ شدید کے ہم بعض وہمیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ایک ہی استنجا کے لیے ڈھیلوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں اور پانی کے کئی کئی مٹکے خالی کردیتے ہیں۔ اور تین سے کم ڈھیلوں میں بخوبی صفائی اور پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی اور تین میں صفائی ہوجاتی ہے اور تین سے زیادہ میں تضییعِ اوقات اور وہم کا بڑھانا ہے۔ اور گوبر و ہڈیوں سے استنجا اس لیے منع ہوا کہ ان میں اکثر موذی جانور: سانپ بچھو وغیرہ اور بعض ۔ِقسم کے کاٹنے والے کیڑے بیٹھے رہتے ہیں، لہٰذا آں حضرت ﷺ نے بنظرِ شفقت و رحمت اپنی امت کو ان سے استنجا کرنا منع فرمایا، تاکہ استنجا کرنے والے کو کوئی موذی جانور نہ کاٹے اور ایذا نہ پہنچائے۔ وجہ یہ ہے کہ اکثر ہوام اور موذی جانور: سانپ، بچھو، ہزارپا وغیرہ کی پیدایش گوبر اور ہڈیوں میں سے ہوتی ہے اور ان ہی سے ان کی خوراک وپرورش ہوتی ہے اور ان کے سوراخ دار جگہوں میں ایسے جانور گھسے رہتے ہیں، اس لیے کہ جہاں کسی چیز کی پیدایش و خوراک کا سامان ہو وہاں اس کا اکثر قیام رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے استنجا کرنا منع ہوا، تاکہ ان کے اندر سے نکل کر کوئی زہریلا جانور استنجا کرنے والے کو ایذا نہ پہنچائے۔ ۲۔ گوبر، ہڈیوں سے استنجا کرنا موجبِ امراضِ شدیدہ ہے، کیوںکہ ان میں زہریلے حشرات کے اور ہوائے متعفن کے سمی اور قاتل آثار ہر وقت موجود رہتے ہیں، اگرچہ ان میں کسی وقت کیڑے نہ بھی موجود ہوں۔ لہٰذا آں حضرت ﷺ نے اپنی اُمت کے لوگوں کو محض بنظر ِشفقت و رحمت ان ضرروں سے بچنے کے لیے گوبر اور ہڈیوں سے استنجا کرنا منع فرمایا ہے۔ اور ہڈیوں کے باب میں ایک اور حکمت بھی وارد ہے: إنہ زاد إخوانکم من الجن۔ وہ اس کے علاوہ ہے۔قہقہہ اور قے اور نکسیر سے امرِ وضو کا راز : بہتا ہوا خون اور قے کثیر بدن کو آلودہ کرنے والی اور نفس کو پلید کرنے والی چیزیں ہیں اور نماز میں قہقہہ لگانا ایک قسم کا جرم ہے، جس کا کفارہ ہونا چاہیے۔ اگر ان چیزوں سے شارع وضو کا حکم دے تو کچھ عجب نہیں ہے۔ اور قہقہہ کا جرم ہونا اس لیے ہے کہ نماز میں قہقہہ کسی نفسانی پلیدی کے باعث ہوتا ہے، جس کا ازالہ وضو سے کرنا لازم ہوا۔