احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شدید کے بعد فائدہ اُٹھا سکیں، پس مصلحت کے مناسب اس سے زیادہ کوئی صورت نہیں ہے کہ زکاۃ کے لینے میں وہ قانون مقرر کیا جاوے کہ بادشاہ عادل اپنی رعایا سے اس کو برتتے رہتے ہیں اور لوگ اس کے عادی ہو رہے ہیں، کیوں کہ جس چیز کے عرب و عجم عادی ہیں وہ بمنزلہ ضروری چیز کے ہوگئی ہے، جس کے سبب وہ تنگ دل نہیں ہوتے اور لوگوں نے اس کو ایسا مان لیا ہے کہ ان پر اس کا بار نہیں ہے اور اس کے ساتھ لوگوں کو مکلف کرنا رحم کی شان کے مناسب اور ان کے قبول کرنے کے قریب ہے۔ اور سب سلاطین و رعایا کی عادات میں پہلے سے محصول والی چیزوں کے لیے ایک سال کی مدت مقرر ہے، کیوںکہ ایک سال میں ہر قسم کی فصلیں شامل ہوتی ہیں، جن کے طبائع مختلف ہوتے ہیں اور نیز ایک سال میں مال کے بڑھنے کا بھی احتمال ہوتا ہے، اس لیے بھی ایک سال کی مدت اس قسم کے اندازوں کے لیے مناسب ہے، اس سبب سے یہ ہی سال زکاۃ کے لیے بھی مقرر ہوا۔سائمہ میں وجوبِ زکاۃ کی اور عوامل سے اس کے اسقاط کی وجہ : ’’دارقطنی‘‘ میں آں حضرت ﷺ سے روایت ہے: لیس في الإبل العوامل ولا في البقر العوامل صدقۃ۔ یعنی کام میں لگائے ہوئے اونٹوں اور کام کرنے والے بیلوں میں صدقہ نہیں۔ اس میں یہ راز ہے کہ جو مال صاحبِ مال کی خدمت کے لیے مخصوص ہے، مثلاً: پہننے کے کپڑے اور کام کرنے والے خدمت گار غلام اور رہنے کے مکانات اور سواری کے جانور اور پڑھنے کی کتابیں اور کھیتی میں کاشت کاری کے بیل اورر ہٹ میں چلنے والے اونٹ وغیرہ، یہ اشیا مالک کے دست و پا و آلاتِ ضروریہ کی طرح ہیں، پس ان میں زکاۃ نہیں ہوئی اور عوامل یعنی کام کرنے والے جانوروں میں اور سائمہ یعنی مدام چرنے والے جانوروں میں فرق ظاہر ہے، کیوں کہ بہائمِ عاملہ نمو اور بڑھنے سے الگ کرکے کام میں لگائے ہوئے ہوتے ہیں اور مدام چرنے والے، کام سے آزاد جانور بڑھتے اور پھیلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ان میں زکاۃ مقرر ہوئی۔ غرض جانور ان عاملہ تو انسان کے اثاثۂ 1ضروریہ کی طرح ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان میں زکاۃ مقرر نہیں ہوئی اور جانور انِ غیر عاملہ انسان کے مالِ تجارت کی طرح ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان میں زکاۃ مقرر ہوئی، کیوںکہ زکاۃ کی دو وجہیں ہوتی ہیں: نموِ مال2