احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حکمت جوازِ طلاقِ زن : واضح ہو کہ طلاق عربی لفظ ہے، جس کے معنی اردو زبان میں کھولنے یا چھوڑ دینے کے ہیں اور اصطلاحِ شریعتِ اسلام میں مرد کا اپنی عورت کو اپنے نکاح سے خارج کردینا ہے۔ جس کا مطلب تفصیلِ ذیل سے بخوبی معلوم ہوگا۔ واضح ہو کہ مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے، جس میں مرد کی طرف سے اسلام اور مہر اور تعہدِ نان و نفقہ و حسنِ معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاک دامنی اور نیک چلنی اور فرماں برداری کے عہود شرائط ضروریہ ہیں۔ اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے س قابلِ فسخ ہوجاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابلِ فسخ ہوجاتا ہے۔ صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خود بخود نکاح توڑنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکمِ وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑ سکتی ہے، جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کراسکتی ہے اور یہ کمیٔ اختیار اس کی فطرتی شنا بکاری اور نقصانِ عقل کی وجہ سے ہے، لیکن مرد جیسا کہ اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح کا باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے شرائط ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختار ہے۔ سو یہ قانون فطرتی قانون سے جو عن قریب مذکور ہوتا ہے مناسبت اور مطابقت رکھتا ہے۔ گویا کہ اس فطرتی قانون کی عکسی تصویر ہے، کیوںکہ فطرتی قانون نے اس بات کو تسلیم کرایا ہے کہ ہر ایک معاہدہ شرائط قرار دادہ کے فوت ہونے سے قابلِ فسخ ہوجاتاہے اور اگر فریقِ ثانی فسخ سے مانع ہو تو وہ اس فریق پر ظلم کر رہا ہے جو فقدانِ شرائط کی وجہ سے فسخِ عہد کا حق رکھتا ہے۔ سو جب ہم سوچیں کہ نکاح کیا چیز ہے تو بہ جز اس کے اور کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی کہ ایک پاک معاہدہ کی شرائط کے نیچے دو انسانوں کا زندگی بسر کرنا ہے اور جو شخص شرائط شکنی کا مرتکب ہو وہ عدالت کی رو سے معاہدہ کے حقوق سے محروم رہنے کے لائق ہوجاتا ہے اور اسی محرومی کا نام دوسرے لفظوں میں طلاق ہے۔ پس جس مطلقہ کی حرکات سے شخص طلاق دہندہ پر کوئی بد اثر پہنچتا یادوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت کسی کی منکوحہ ہو کر نکاح کے معاہدہ کو کسی اپنی بد چلنی سے توڑ دے تو وہ اس عضو کی طرح ہے جو گندہ ہوگیا اور سڑ گیا، یا اس دانت کی طرح جس کو کیڑے نے کھا لیا اور وہ اپنے شدید درد سے ہر وقت تمام بدن کو ستاتا اور دُکھ دیتا ہے تو اب حقیقت میں وہ دانت دانت نہیں ہے اور نہ وہ متعفن عضو حقیقت میں عضو ہے اور سلامتی اسی میں ہے کہ اس کو اکھاڑ دیا جاوے اور کاٹ دیا جائے اور پھینک دیا جاوے۔ یہ سب کارروائی قانونِ قدرت کے موافق ہے۔ عورت کا مرد سے ایسا تعلق نہیں ہے جیسے اپنے ہاتھ اور پاؤں کا،