احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس حالت سے مشابہ ہے جب کہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اس روحانی حالت کے مقابلہ پر نمازِ عشا مقرر ہوئی ہے، تاکہ ان بلیات قریبۃ الوقوع باعتبار القدرۃ سے تم ببرکتِ طاعت کے محفوظ رکھے جاؤ۔ اور رات اور تاریکیوں کو مصائب کے ساتھ اور دن اور روشنیوں کو آرام و نجات کے ساتھ قدرتی مناسبت ہے، چناںچہ عرب کا ایک شاعر بھی اس قدرتی مناسبت کو یوں بیان کرتا ہے: ألم تر أن اللیل لمّا تراکمت دجاہ بدا وجہ الصباح ونورہ فلا تصحبن الیأس إن کنت عالما لبیبًا فإن الدھر شتی أمورہ ترجمہ: کیا تو نہیں دیکھتا کہ جب اندھیری رات چھا جاتی ہے تو اس کے بعد صبح کا نور آیا کرتا ہے، پس اگر تو دانا ہے تو نا اُمید نہ ہو کہ زمانہ کے مختلف اُمور ہوتے ہیں۔وجہ تعیینِ نمازِ فجر : ۔ پھر جب کہ تم مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمھیں اس تاریکی سے نجات دیتا ہے اور تاریکی کے بعد آخر کار پھر صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ سو اس حالتِ نورانی کے مقابل پر نمازِ فجر مقرر ہے۔ خدا تعالیٰ نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ نمازیں تمہارے لیے مقرر کیں۔اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدے کے لیے ہیں۔ پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو تم پنج گانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہارے اندرونی اور روحانی تغیرات کا ظل ہیں، وہ آنے والی بلاؤں کا علاج ہیں۔ تم نہیں جانتے کہ یہ نیا دن کس قسم کی قضا و قدر تمہارے لیے لائے گا۔ پس تم قبل اس کے کہ دن چڑھے، اپنے مولیٰ کی جناب میں تضرع کرو، تاکہ تمہارے لیے خیر و برکت کا دن چڑھے۔ یہ ایسا وقت ہے کہ اگر اس وقت انسان خدا تعالیٰ سے غافل ہو تو اس کی روحانیت پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور سویا ہو تو اس کی جسمانیت کو سخت ضرر پہنچتا ہے۔ چناںچہ صاحب ’’مفرح القلوب‘‘ لکھتا ہیـ: اما نوم بامداد کہ مسمی است بحیلولہ سخت زیاں دارد خاصتاً اگر معدہ خالی بود۔