احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بنسبت دن کے دلوں کو زیادہ مؤثر اور خوش معلوم ہوتی ہے، لہٰذا ان اوقات میں جہری قرأت پڑھنی مقرر ہوئی جس میں وہ زیادہ مؤثر ہو۔ اسی طرح ظہر و عصر کی نمازوں میں قرآن کے آہستہ پڑھنے میں یہ حکمت ہے کہ دن میں بازاروں اور گھروں کے اندر شور و شغب رہتا ہے اور اس لیے اوقاتِ ظہر و عصر میں کثرتِ شواغل و حرکات و اصوات و متفرق امور و افکار سے دلوں کو فراغت کم ہوتی ہے اور بات پر خوب توجہ نہیں جمتی، اس لیے ان وقتوں میں قرأت میں جہر نہیں مقرر ہوا۔ چناںچہ قرآن کریم میں بھی اسی امر کی طرف خدا تعالیٰ نے ایما فرمایا ہے: {اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًاO}2 یعنی دن میں تجھ کو دور دراز شغل رہتا ہے ۔ اور اس وقت پوری توجہ نہیں ہوتی اور رات میں دل کو زبان سے اور زبان کو کان سے پوری موافقت ہوتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ فجر کی نماز میں سب نمازوں سے زیادہ لمبی قرأت کا پڑھنا سنت ہے۔ نبی ﷺ فجر کی نماز میں ساٹھ سے سو آیت تک پڑھتے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ فجر کی نماز میں سورۂ بقرہ اور حضرت عمر بن الخطاب ؓ سورۂ نمل اور سورۂ ہود اور سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ یونس وغیرہ لمبی سورتیں پڑھا کرتے تھے، کیوںکہ نیند سے جاگنے کے وقت دل کو فراغت ہوتی ہے اور مصلحت ہے کہ پہلے پہلے جو آواز کان سے گزر کر دل پر پڑے وہ خدا تعالیٰ کا کلام ہو، جس میں انسان کے لیے سراسر بھلائی اور برکت اور خیر و خوبی بھری پڑی ہے اور اس وقت وہ کلام دل میں بلا مزاحمت مؤثر ہوتا اور دل میں خوب جم جاتا ہے۔جمعہ و عیدین وغیرہ میں جہری قرأت کی وجہ : جب دن کے وقت کوئی ایسی نماز پیش آجاوے جو نماز کے علاوہ تبلیغِ اسلام و تعلیم و وعظ و تربیت و تلقین کے لیے مقرر کی گئی ہو تو وہاں قرأت دن میں جہر اور آواز سے پڑھنی مقرر ہوئی ہے، مثلاً: جمعہ و عیدین اور استسقا اور بعض ائمہ کے نزدیک کسوف کی نمازوں میں قرأت جہری پڑھی جاتی ہے، کیوںکہ ان وقتوں میں قرأت کا جہر سے پڑھنا لوگوں کے جمع ہونے کے مقصود کو مفید ہوتا ہے، یعنی لوگوں کے لیے تعلیم و تبلیغِ احکامِ اسلام و وعظ بھی اغراض ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسے موقعوں پر جہری قرأت کا پڑھنا ٹھہرایا گیا، کیوں کہ ان موقعوں پر عام