احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گنجایش نہیں ہے۔ اصل سبب تعددِ ازواج کا بدکاریوں سے بچنا ہے، جو لوگ بحثوں میں تعددِ ازواج کے مخالف ہیں وہ اندرونی خواہشات اور افعال کا مطالعہ فرماویں۔ جس قوم نے زبان سے پاک تعددِ ازواج کا انکار کیا ہے وہ عملی طور پر ناپاک تعددِ ازواج یعنی زنا کاری میں گرفتار ہوئے ہیں۔ ان کی خواہشوں کی وسعت اور دست درازی نے ایک عورت پر قناعت نہ کرکے ثابت کردیا ہے کہ فطرت میں تعدد اور تنوع کی آرزو ضرور ہے۔ خدا تعالیٰ کے قانون کا یہ مقتضا ہونا چاہیے کہ وہ انسان کی وسیع خواہشوں اور اندرونی میلانوں پر مطلع اور حاوی ہو کر ایسی ترتیب اور طرز پر واقع ہو کہ مختلف جذبات والی طبائع کو بھی تقویٰ اور طہارت کے دائرہ میں محدود رکھے۔مرد کے لیے تعددِ ازواج چار تک محدود ہونے کی وجہ : مرد کے لیے چار عوراتِ منکوحہ محدود ہونے کی وجہ خدا تعالیٰ کی کمالِ حکمت و اتمامِ نعمت و مصلحت پر مبنی ہے، ہم قبل ازیں لکھ چکے ہیں کہ مرد کو قوتیں اور طاقتیں بنسبت عورت کے زیادہ عطا کی گئی ہیں۔ اس لیے کئی عورتوں سے ایک زمانہ میں نکاح کرسکتا ہے۔ تعددِ ازواج کی مصلحت نکاح کی علتِ غائی سے معلوم ہوسکتی ہے، سو نکاح کی علت غائی جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں سب سے اوّل دائم تقویٰ و عفت و توالد ہے اور چوںکہ تمام بنی آدم کی قوت یکساں نہیں ہوتی، اس لیے خدا نے ان کی طاقتوں وقوتوں کے مناسب ان کے لیے اسباب فراہم کیے ہیں۔ سو جن اشخاص کو ہیجان و توقانِ شہوت1 زیادہ ہو ان کی حفاظتِ عفت کے لیے ہر سال میں چار عورتیں نوبت بنوبت ان کے پاس ہونا چاہییں اور ایسے آدمیوں کے لیے یہ عدد عین قانونِ قدرت کے مطابق ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایسا آدمی جب کسی ایک عورت کو نکاح میں لائے گا تو کم از کم یہ عورت اس کے لیے تین ماہ تک کافی ہے، کیوںکہ حمل کی شناخت کم از کم تین ماہ تک مقرر ہے۔ پس اگر اس میعاد میں اس عورت کو حمل ٹھہر جائے تو ہیجان و جوشِ شہوت والا آدمی اگر اس عورت سے صحبت کرے گا تو جنین پر برا اثر پڑے، وہ حمل گر جانے کا اندیشہ ہے، لہٰذا اس عورت کو آرام دیوے اور اس عورت سے صحبت ترک کرکے دوسری عورت نکاح میں لائے گا۔ اگر دوسری عورت کو بھی تین ماہ تک قرارِ حمل ہوجاوے تو اس سے بھی صحبت ترک کرنی پڑے گی، کیوںکہ اس سے اسقاطِ حمل کا اندیشہ ہے اور والدین کے شہوانی جوش جنین پر برا اثر ڈالتے ہیں، یہ چھ ماہ ہوئے۔ اب تیسری عورت سے نکاح کرے گا۔ اگر تیسری عورت کو بھی حمل ہوگیا تو اب اس سے بھی اس کو صحبت ترک کرنی پڑے گی، یہ نو ماہ ہوگئے۔ اب پہلی عورت کا وضع حمل ہوجائے گا مگر وہ غالباً تین ماہ تک قابلِ صحبت نہیں ہوسکتی، لہٰذا اس کو چوتھی عورت