احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہرچہ کاری بد روی بر رائے تست یہی سات اعضا ہیں جس کے ذریعے سے نفسِ امارہ کی ناپاک و ناجائز حرکات کا صدور ہوتا ہے۔ قصۂ نفس از بپرسی اے پسر قصۂ دوزخ بخواں باہفت سر ۳۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسی فطرت پر پیدا کیا ہے کہ وہ جو کچھ آنکھ سے دیکھتا ہے، کان سے سنتا ہے، ناک سے سونگھتا ہے، زبان سے چکھتا ہے، ہاتھ سے چھوتا ہے، اس کا اثر اس کے دل پر پہنچتا ہے اور ایک خیال اس میں پیدا ہوتا ہے جو اس کے اخلاق پر اثر کرتا ہے۔ انسان کے دل کے اندر سے نکلنے والی چیزوں کی بنسبت وہ چیزیں زیادہ ہیں جو باہر سے اس کے دل کے اندر جاتی ہیں، بلکہ ٹھیک ٹھیک یوں کہنا چاہیے کہ جو کچھ انسان کے دل سے نکلتا ہے وہ وہی ہے جو باہر سے اس کے دل میں جاتا ہے۔ پس صفائے دل کے لیے ان اعضائے سبعہ کا دھونا بڑا مفید ہے جن کا اثر انسان کے اندر دل میں جا کر پیدا ہوتا ہے، کیوںکہ جیسا کہ ظاہری انداموں کو دھونے سے ان میں نشاط، سرور و نور پیدا ہوتا ہے ایسا ہی دل میں بھی اثر ہوتا ہے۔ہر اندامِ وضو کو تین بار دھونے کا راز : ۔ ہر اندامِ وضو کو تین بار دھونا تین ارکانِ توبہ کی طرف ایما ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں: موجودہ حالتِ گناہ سے نکلنا۔ ندامت بر کردہ۔ آیندہ کے لیے ترکِ گناہ کا عزم بالجزم۔ ۲۔ ہر اندامِ وضو کو تین بار تک دھونا اس لیے مقرر ہوا کہ تین سے کم دھونے میں نفس پر پورا پورا اثر نہیں پیدا ہوتا اور یہ امر تفریط میں داخل ہے، اور زیادہ دھونے میں افراط و اسراف ہے، کیوں کہ اگر دھونے کے لیے ایک حد معین نہ ہوتی تو ظنی اور وہمی انسان سارا دن ہاتھ پاؤں ہی دھونے میں گزار دیتے اور ان کی نماز کا وقت گزر جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک صحابی نے آں حضرت ﷺ سے پوچھا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ فرمایا: نعم، ولو کنت علی ضفَّۃ نھر جارٍ۔