احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بحسبِ حیثیت خود ضرور ایک قسم کی محنت و مشقت میں ہوتا ہے، پس یہ خدا تعالیٰ کی محض رحمت و مصلحت ہے کہ اس نے اس پر سے ایک حصہ نماز کا کم کردیا اور ایک ہی حصہ پر اکتفا فرمایا اور فرض روزہ میں سفر میں افطار سے تخفیف فرمائی اور پھر ختمِ سفر کے بعد یعنی اقامت میں اس کی ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ جیسا کہ بیمار و حائض کے متعلق ایسا ہی حکم ہے، تاکہ ان سے اس عبادتِ الٰہی کی مصلحت سفر میں ساقط کرنے سے بالکل فوت نہ ہوجائے۔ اور اقامت میں جو مشقت اور تکلیف اور مشکل پیش آتے ہیں وہ ایسے ہیں جن کا کوئی انحصار اور شمار نہیں ہے۔ پس اس طرح اگر محنتی و مزدور و مشقت والے آدمی کے لیے رخصت و اجازت افطارِ روزہ و قصر نماز کی ہوتی تو بہت ہی ضروری و لازمی عبادات ضائع ہوجاتیں اور اگر بعض کے لیے اجازت ہوتی اور بعض کے لیے نہ ہوتی تو بھی انحصار نہ ہوتا اور کوئی خاص ایسا وصف بھی نہیں ہے جس کا انضباط ہوسکے، جس کی بنا پر رخصت و وعدمِ رخصت ہوتی، بخلاف سفر کے، کیوںکہ مشقت و محنت سفر کے ساتھ معلق کی گئی ہے اور اس میں تخفیفِ عبادت کے ساتھ مناسبت بھی ہے۔ البتہ اگر مقیم کو عذرِ مرض و درد ہو تو اس کے لیے افطارِ روزہ کی اجازت ہوئی اور نماز بیٹھ کر یا پہلو پر لیٹ کر ادا کرنا بھی جائز رکھا گیا اور یہ قصر ِعدد کی نظیر ہے۔ اور محض تکان کی مشقت و تکلیف کا اعتبار نہیں کیا گیا، کیوںکہ یوں تو دنیا و آخرت کی تمام ہی مصلحتیں تکان اور محنت پر موقوف ہوتی ہیں اور جو شخص محنت اور تکلیف نہیں اُٹھاتا اس کو کوئی راحت و آرام نہیں ملتا، محنت و تکلیف کی قدر ہی آرام و راحت سے ملتی ہے۔ چناںچہ ظاہر ہے کہ مشقت کے تمام پیشوں میں مثلاً: کاشت کاری اور آہن گری وغیرہ محنت اور مشقت وحرج بالضرور ہوتا ہے، اسی طرح دنیا کا کوئی کسب و کام محنت و مشقت سے خالی نہیں ہوتا، اس لیے ان میں قصر ِنماز و افطارِ روزہ کی اجازت نہیں دی گئی، کیوںکہ پیشہ ور اور محنتی لوگ مدام ان میں مصروف و مشغول رہتے ہیں۔ ان کی معاش ان ہی پیشوں پر موقوف ہوا کرتی ہے۔ اگر ان کو اجازتِ عام ہوتی تو اطاعتِ الٰہی کے انتظامات میں سخت ابتری پھیل جاتی، اس لیے مصلحت اور حکمتِ الٰہی نے عام محنتوں و مشقتوں میں رخصت تجویز نہیں فرمائی بلکہ خاص محنتوں و مشقتوں کے لیے رخصت ہوئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر ایک حرج کی صورت میں رخصت تجویز نہ کرنا چاہیے، اس لیے کہ حرج کے طریقے بکثرت ہیں اور اگر سب میں رخصت تجویز کی جائے تو اطاعتِ الٰہی بالکل متروک ہوجائے۔حائضہ پر ادائے روزہ اور عدمِ ادائے نماز کی وجہ : حضرت ابنِ قیم ؒ لکھتے ہیں: وأما إیجاب الصوم علی الحائض دون الصلاۃ فمن تمام محاسن الشریعۃ وحکمتھا ورعایتھا لمصالح المکلفین؛ فإن الحیض لما کان منافیا للعبادۃ لم یشرع فیہ فعلھا، وکان في صلاتھا أیام التطھیر ما یغنیھا عن صلاۃ أیام الحیض، فیحصل لھا مصلحۃ الصلاۃ في زمن التطھیر