احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہشتم حکمتِ وضو شعارِ الٰہی میں بطہارت داخل ہونا : چوں کہ نماز عظیم الشان شعار اللہ میں سے ہے، لہٰذا شعارِ الٰہی میں داخل ہونے کے لیے وضو لازم ٹھہرایا گیا۔ چناںچہ آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں: مفتاح الصلاۃ الطہور۔ یعنی نماز کی کنجی وضو ہے۔نہم حکمتِ وضو عرضِ حال : رعایا کو بغرضِ مطلب و حال اور احکامِ شاہانہ سننے کے لیے دربارِ شاہی میں جانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وجہ سے تمام آداب و تعظیمات جو وقتِ حضوریٔ دربار بجا لاتے ہیں وہ سوال ہی کی مد میں شمار کیے جاتے ہیں، مگر جیسے عرضِ مطلب کے لیے زبان اور حکم سننے کے لیے کان چاہییں ایسا ہی حضورِ دربار کے لیے ہاتھ، منہ، پاؤں کا دھونا اور درستیٔ لباس کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ مدِ سوال و عرضِ حال ہی میں شمار کیے جاتے ہیں۔ پس جب امرا و سلاطین کے حضور میں جاتے یا کسی عمدہ یا پاکیزہ کام کا قصد کرتے ہیں تو ان اعضائے وضو کو دھو لیتے ہیں، کیوںکہ ان پر اکثر گرد و غبار، میل کچیل کا اثر بوجہ ان کی برہنگی کے ہوتا رہتا ہے اور باہم ملاقات کے وقت بھی یہی اعضا نظر پڑتے ہیں۔دہم حکمتِ وضو حصولِ تقویت و بیداریٔ اعضائے رئیسہ : تجربہ سے شہادت ملتی ہے کہ ہاتھ پاؤں کے دھونے سے اور منہ اور سر پر پانی چھڑکنے سے نفس پر بڑا اثر ہوتا ہے اور اعضائے رئیسہ میں تقویت و بیداری پیدا ہوجاتی ہے۔ غفلت اور خواب اور نہایت بے ہوشی اس فعل سے دور ہوجاتی ہے۔ اس تجربہ کی تصدیق حاذق اطبا سے ہوسکتی ہے، کیوںکہ جس کو غشی ہو یا زیادہ اسہال آتے ہوں یا کسی کی فصد لی گئی، ہو اس کے اعضائے مذکور پر پانی چھڑکنا تجویز کرتے ہیں۔ چناں چہ علامہ قریشی نے اپنی کتاب ’’موجز‘‘ میں اور دیگر اطبا نے