احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خوف کا معلوم کرنا ایک باطنی امر تھا، اس لیے آں حضرت ﷺ نے ایک ظاہری فعل سے جو نفس کو بھی خوف یاد دلاتا ہے اور اس کو آگاہ کرتا ہے منضبط فرمایا۔حرم کے جانوروں کا شکار نہ کرنے کی مصلحت : ۔ حرم کے جانوروں کا نہ کھانا ایسا ہے جیسا کوئی شخص اپنے محبوب کے کوچہ کے جانوروں کو باوجودیہ کہ دیگر گوشت کھایا کرتا ہو کچھ نہ کہے۔ ۲۔ مکہ کے لیے حرم مقرر کرنے میں یہ راز ہے کہ ہر چیز کے لیے ایک خاص طرز کی تعظیم ہوتی ہے، چناںچہ کسی دین کی یہ تعظیم ہے کہ اس میں کسی چیز سے تعرض نہ کیا جائے اور دراصل یہ تعظیم بادشاہوں کی حد اور ان کے شہر پناہوں سے ماخوذ ہے، جب کوئی قوم ان کی فرماں بردار ہوتی ہے اور ان کی اطاعت اور تعظیم کرتی ہے تو ان کے مطیع ہونے میں یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ وہ اپنے اوپر اس بات کو مقرر کرلیتی ہے کہ ان کی حدود کے اندر جو درخت و چار پائے وغیرہ ہیں ان سے ہم کچھ تعرض نہ کریں گے اور حدیث شریف میں آیا ہے: إن لکل ملک حمی، وحمی اللّٰہ محارمہ۔ یعنی ہر بادشاہ کے لیے باڑ ہوتی ہے اور خد ا تعالیٰ کی باڑ اس کے محارم ہیں۔حاجی کی سواری کی عبرتیں : سواری جس وقت سامنے آوے اس وقت اپنے دل میں خدا تعالیٰ کی نعمت کا شکر کرو کہ اس نے ہماری سواری کے لیے چوپایوں کو اور عناصر یعنی آب و ہوا اور آتش وغیرہ جن سے ریل اور اگن بوٹ وغیرہ چلتے ہیں مسخر کیا کہ ہم کو تکلیف نہ ہو اور ہماری مشقت ہلکی ہو جاوے، اور یہ یاد کرو کہ دارِ آخرت کی سواری بھی ایک دن اسی طرح سامنے آ جاوے گی یعنی جنازہ کی تیاری ہوگی، اس پر سوار ہو کر دارِ آخرت کا کونچ کرنا پڑے گا۔ الغرض حج کا سفر آخرت کے سفر کی طرح ہے، لہٰذا اس پر ضرور نظر کرلینا چاہیے کہ حج کی سواری پر سفر کرنا اس قابل ہو کہ سفرِ آخرت کی سواری کا توشہ ہوسکے، کیوںکہ سفرِ آخرت آدمی سے بہت ہی قریب ہے، کیا معلوم کہ موت قریب ہو اور اونٹ کی سواری سے پیشتر ہی تابوتِ آخرت پر سوار ہوجائے اور تابوت کی سواری یقینا ہوگی اور سامانِ سفر کا مہیا ہوجانا