احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سوال: یکم شوال کا روزہ رکھنا حرام اور رمضان کا اخیری روزہ فرض ہونے کا کیا راز ہے؟ باوجود یہ کہ دونوں یوم یکساں ہیں۔ جواب: یہ دونوں یوم مرتبہ اور درجہ میں برابر نہیں، اگرچہ طلوع و غروبِ آفتاب میں یکساں ہیں، مگر حکمِ الٰہی میں یکساں نہیں ہیں، کیوںکہ ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے جس کے روزے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کیے ہیں اور یکم شوال لوگوں کی عید و سرور کا دن ہے۔ جس میں خدا تعالیٰ نے لوگوں پر کھانا پینا بطورِ شکر گزاریٔ بندگانِ خدا مباح کیا ہے، اس لیے اس دن سب لوگ خدا تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں۔ لہٰذا خدا تعالیٰ کے مہمان کو واجب ہے کہ اس کی دعوت و ضیافت کو قبول کرے۔ یہ امر خدا تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے کہ اس دن کوئی شخص روزہ رکھ کر خدا تعالیٰ کی دعوت و ضیافت کو رد کرے۔ مہمان کے لوازم و آداب میں سے یہ امر بھی ہے کہ روزہ رکھے تو صاحبِ خانہ یعنی میزبان کے اِذن سے رکھے۔ پس جب یکم شوال کو اہلِ اسلام خدا تعالیٰ کے خاص مہمان ہوتے ہیں تو پھر اس دن کسی کو روزہ رکھنا جائز ہوسکتا ہے؟ یہ امر شریعتِ اسلامیہ کی خوبیوں میں سے ہے کہ خدا نے رمضان کا آخری روزہ رکھنا فرض کیا، کیوںکہ یہ روزہ خدا تعالیٰ کے اتمامِ نعمت و خاتمۂ عمل کے لیے ہے، اور شوال کی یکم کو روزہ رکھنا حرام ہوا، کیوںکہ وہ ایسا دن ہے کہ اس میں تمام مسلمان اپنے پروردگار کے مہمان ہوتے ہیں۔ یوں تو تمام خلوق خدا تعالیٰ کی دائمی مہمان ہے مگر یہ دن ان کی ایک مخصوص مہمانی و ضیافت کا ہے، جس کو رد کرنا گناہِ عظیم ہے۔ماہِ رمضان کی راتوں میں تقررِ نمازِ تراویح کی وجہ : ۔ رمضان کی راتوں میں نمازِ تراویح اس لیے مقرر ہوئی کہ طبعی خواہشوں کی کمالِ مخالفت ثابت ہو، کیوںکہ طبیعت روزہ کی سستی ومحنت و مشقت کو دفع کرنے کے لیے استراحت و آرام چاہتی ہے، لہٰذا اس میں ایسی عبادت کا تقرر ہوا کہ جس سے عادت و عبادت میں امتیاز ہو۔ ۲۔ ماہِ رمضان نزول مزید برکات و انوار کے لیے مخصوص ہے، لہٰذا اس مہینہ کی راتوں میں بھی ایک خاص عبادت کا تقرر ہوا، کیوںکہ اکثر برکات و انوارِ الٰہی کا نزول رات ہی کو ہوتا ہے۔