احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جو خیالات اور علوم زندگی میں اس کے ساتھ تھے مرنے کے بعد اس کے ہمراہ رہتے ہیں اور پھر عالمِ بالا سے اور علوم کا اس پر ترشح ہوتا ہے، جن کی وجہ سے بہت کو عذاب یا ثواب ہوتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کی ہمتیں جب عالمِ قدس تک پہنچتی ہیں اور اس میت کے لیے وہ گڑ گڑا کر دُعا کرتے ہیں یا میت کے لیے بہت کچھ صدقے دیتے ہیں تو حکمِ الٰہی سے میت کے حق میں وہ نافع پڑتا ہے۔حکمتِ ماتم پرسی : چوں کہ میت کے گھر والوں کو اس کی موت سے سخت رنج ہوتا ہے، لہٰذا دنیا کے اعتبار سے تو ان کے حق میں یہ بھلائی ہے کہ لوگ اس کی تعزیت کے لیے آئیں، تاکہ ان کا رنج کچھ کم ہو اور میت کے دفن کرانے میں شریک ہو کر ان کی مدد کریں اور ان کو ایک دن رات کھانا دیں۔ اور آخرت کے لحاظ سے ان کے لیے یہ بہتر ہے کہ ان کو اجرِ عظیم کی ترغیب دلائی جائے، تاکہ ہمہ تن وہ پریشانی میں مصروف نہ ہوں اور خدا کی طرف ان کی توجہ ہو اور ۔ّچلانے اور کپڑے پھاڑنے اور تمام ان چیزوں سے جو کہ غم اور پریشانی بڑھاتے ہیں منع کریں، کیوںکہ اس وقت وہ لوگ بمنزلہ مریض کے ہوجاتے ہیں، ان کے مرض کا علاج کرنا چاہیے، نہ یہ کہ ان کے مرض کو اور بڑھائے جائے۔فرضِ کفایہ کا راز : بعض فرائض اس قسم کے مقرر کیے گئے ہیں کہ ایک مقام کے بعض افراد اس کو ادا کریں تو وہ سب کی طرف سے ادا ہوجائیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ سب لوگ ان کو متفقانہ طور پر کرنے لگیں تو انتظامِ معاش برہم ہوجائے، ان کی تدابیرِ نافعہ معطل ہوجائیں۔ پس ایسے امور کے لیے ایک ایک شخص کافی ہے، چناںچہ بیماروں کی عیادت، جنازہ کی نماز اسی طور پر مشروع ہوئی ہیں کہ بیماروں اور مردوں کی تضیع بھی نہ ہو اور بعض لوگ اگر اس کو پورا کردیں تو مقصود بھی حاصل ہوجاوے۔نمازِ جنازہ و صدقہ خیرات سے میت کو فائدہ پہنچنے کا راز : دنیا میں سفارش کرنے اور تاوان دینے کے سبب مجرموں سے عذاب ٹل جانے اور رفع ہونے کے مشاہدہ و تجربہ سے کوئی منکر نہیں ہے، ایسا ہی گناہ گار میت کو دعا و نمازِ جنازہ اور صدقاتِ مالیہ مفید ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ایسے اُمور کا بکثرت ذکر آیا ہے اور آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں: