احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا ہونا سو یہ امر تعیینِ ذکر کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کنکری پھینکنے کے ساتھ اللّٰہ أکبر کہنا مشروط ہے۔ ابوداود و ترمذی بروایت حضرت عائشہ ؓ کے روایت کرتے ہیں کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: إنما جعل الطواف بالبیت، والسعي بین الصفا والمروۃ، ورمي الجمار لإقامۃ ذکر اللّٰہ لا لغیرہ۔ یعنی طوافِ کعبہ اور سعی درمیان صفا اور مروہ کے اور پتھر کا پھینکنا فقط ذکر اللہ قائم رکھنے کے واسطے مقرر کیا گیا ہے۔ اور دوسری قسم ذکر کی وہ ہے جس سے خود انصباغ نفس کا مقصور ہو، وہاں خود کثرت ذکر کی مشروع ہے، جیسے بہت سے اذکار ہیں۔ ۲۔ رمی جمار یعنی کنکریاں پھینکنے میں یہ قصد کرے کہ غلامی اور بندگی ظاہر کرنے کے لیے امر کی اطاعت کرتا ہوں اور صرف تعمیلِ ارشاد کے لیے اُٹھتا ہوں، بدون اس کے کہ اس فعل میں کچھ عقل و نفس کا حظ ہو۔ ۳۔ حضرت ابراہیم ؑ کی مشابہت کا قصد کرے کہ اس مقام پر آپ کو شیطان مردود ظاہر ہوا تھا، تاکہ آپ کی حج میں کچھ شبہ ڈال دے یا کسی معصیت میں مبتلا کرے تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا تھا کہ اس کے دفع کرنے کو اور اس کی اُمید منقطع کرنے کے لیے اس کو کنکریاں مارو۔ اس پر اگر کوئی کہے کہ حضرت ابراہیم ؑ پر تو شیطان ظاہر ہوا تھا اور آپ نے اس کو دیکھا تھا، اس لیے اس کو مارا تھا، ہم کو تو شیطان دکھائی نہیں دیتا، پھر کنکریاں مارنے سے کیا غرض ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ شیطان کی طرف سے ہے، اس نے یہ شبہ تمہارے دل میں ڈالا ہے تاکہ تمہارا ارادہ رمی جمار کا سست پڑ جاوے اور تمہارے خیال میں آوے کہ یہ فعل ایسا ہے جس میں کچھ فائدہ نہیں ہے، ایک کھیل کی سی صورت ہے اس میں کیوں مشغول ہوتے ہو۔ پس خوب کوشش اور مضبوطی کے ساتھ شیطان کو ذلیل کرنے کی نیت سے کنکریاں مار کر اپنے دل سے اس کو رفع کرو اور جان لو کہ ہر چند کنکریاں پتھر پر مارتے ہیں لیکن واقع میں شیطان کے منہ پر مارتے ہیں اور اس کی پیٹھ پر، کیوںکہ اس کی ذلت اسی میں ہے کہ اللہ تعالی کے ایسے حکم کی بجا آوری کریں جس کی تعمیل میں نفس اور عقل کو کچھ حظ نہیں، صرف اس کی تعظیم ملحوظ ہے۔بطنِ محسر میں تیز چلنے کا راز : بطنِ محسر میں سواری کے تیز کرنے کا یہ سبب ہے کہ وہ اصحابِ فیل کے ہلاک ہونے کا مقام ہے، لہٰذا جس شخص کو خدا تعالیٰ اور اس کی عظمت کا خوف معلوم ہوتا ہے وہ غضبِ الٰہی سے ڈر کر بھاگتا ہے اور چوں کہ اس