احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خدا ہی کا مشرق و مغرب ہے، سو جس طرف منہ کرو ادھر ہی توجہ ہے اللہ کی۔ ۶۔ ایک اور لطیف بات قابلِ ذکر ہے کہ آغازِ نماز میں جب کہ مسلمان رو بقبلہ کھڑا ہوتا ہے تو یہ آیت پڑھتا ہے: {اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَـآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَO}1 میں نے اپنا رخ کیا اس خدائے تعالیٰ کے طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین ایک طرف کا ہو کر اور میں نہیں ہوں شریک کرنے والا۔ سو باوجود اس تصریح کے مسلمانوں پر کعبہ پرستی کا شبہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ۷۔ اس میں یہ بھی راز ہے کہ جماعت کے انتظام میں خلل نہ ہو اور تمام دنیا کے اہلِ اسلام ایک جہت رہیں۔میقات پر احرام باندھنے اور لبیک کہنے کا بھید : مواقیت کی اصل یہ ہے کہ مکہ میں ایسی حالت میں آنا چاہیے کہ سر پر خاک بھری ہو اور بدن میں میل کچیل، اور نفس ذلت کی حالت میں ہو شارع کو یہی مطلوب ہے۔ پس ضروری ہوا کہ مکہ سے پہلے احرام باندھیں۔ پھر اگر اس بات کا حکم دیا جاتا کہ اپنے اپنے شہروں سے احرام باندھ کر آیا کریں تو ظاہر ہے کہ اس میں کس قدر دقت تھی، کیوں کہ بعض شہر مکہ سے ایک مہینہ کی مسافت پر واقع ہیں اور بعض اس سے بھی زیادہ دور ہیں، لہٰذا ضروری ہوا کہ احرام باندھنے کے لیے مکہ کے گرد چند مقامات تجویز کردیے جاویں کہ ان مقامات کے بعد تاخیر نہ کرسکیں اور ضروری ہے کہ مقامات ظاہر اور مشہور ہوں اور کوئی شخص ان مقامات سے ناواقف نہ ہو۔ رہا لبیک کا بھید، سو میقات پر احرام اور لبیک کہنے سے یہ جانے کہ لبیک کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی پکار پر جواب عرض کر رہا ہوں کہ میں حاضر ہوں۔ اس وقت یہ اُمید بھی کرے کہ یہ جواب مقبول ہو اور خوف و رجا کے درمیان متردد رہے اور اپنے تاب و طاقت سے علیحدہ ہوجاوے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر تکیہ رکھے، اس لیے کہ لبیک کہنے کا وقت ہی حج کا شروع ہے اور وہ خطرہ کی جگہ اور وہ پکار جس کا یہ جواب دیتا ہے وہ ہے جو اس نے فرمایا: {وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ}2 یعنی پکار لوگوں کو حج کے واسطے۔