احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حجر ِاسود تصویری زبان کا نمونہ ہے : اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں بہت مدت سے تصویری زبان کا رواج تھا اور اب بھی ہے، چناںچہ رام چندرجی اور شیوجی کی تصویری قصص ہندؤں کے پاس خصوصاً ہند کے قدیم مصوروں کے پاس موجود ہیں۔ سکندر رومی جس کو حضرت دانیال رومی نے ذوالقران یعنی ایک سینگ کا بکرا خواب میں دیکھا، یہ تصویری زبان کی شہادت ہے۔ دیکھو: ’’دانیال‘‘ باب ۸۔ اسی طرح دارا ایرانی بادشاہ کی تصویری زبان میں گفتگو عام نظموںمیں موجود ہے۔ تصویری زبان کی کتابیں اور اخبارات ہند میں بکثرت موجود ہیں۔ اسکندریہ ملکِ مصر کے ایک جریدہ نگار نے ایک رسالہ قدیمی تصویری زبان کے متعلق لکھ کر شائع کیا ہے۔ جس میں صرف حیوانات و آلات و اشجار وغیرہ کی اشکال ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں پہلے اس زبان کا عام رواج تھا، اب بھی یہ تصویری زبان ان بلاد میں جہاں تعلیم کا رواج کم ہوتا ہے یا بالکل نہیں ہوتا زیادہ تر استعمال کی جاتی ہے، بلکہ اکثر تصویری زبان بنسبت تحریری کے زیادہ قوی ہوا کرتی ہے۔ اس واسطے یادگاروں کو عقلاً اور حکماً اکثر تصویری تحریروں میں ادا کرتے ہیں۔ یوشع بن نون نے یرون سے گزرتے وقت بارہ پتھر اُٹھائے۔1 وہ بقول عیسائیوں کے بارہ حواریوں کی پیشین گوئی تھی۔ یہود اور عیسائی غیر قوموں کو اور بعض خواص کو پتھر کہتے تھے، یہ ان کا محاورہ تھا۔ بطرس کو پتھر اس واسطے کہا کہ کلیسا کے لیے وہ فون ڈیشن سٹون یعنی بنیادی پتھر ہوا۔ ان باتوں پر خوب غور کرو۔ اب تمہید کے بعد کتب مقدسہ میں ایک پیشین گوئی بنسبت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ بہت زور سے درج تھی۔ دیکھو:1 وہ پتھر جسے راج گیروں نے رد کیا وہی کونے کا سرا ہوا۔ اور دیکھو:2 وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے کا سرا ہوگیا۔3 غرض یہ ایک بشارت ہے جو کئی کتبِ مقدسہ میں مندرج ہے، اس بشارت اور پیشین گوئی کے اظہار و تصدیق کے لیے مکہ معظمہ کی بڑی عبادت گاہ میں بطورِ تصویری زبان کے حجر ِاسود کونے پر رکھا گیا تھا۔ محمدیوں سے صدہا سال پہلے سے یہ پتھر ابراہیمی عبادت گاہ کے کونے پر منصوب تھا اور عرب کے لوگ اسے چومتے اور اس سے ہاتھ ملاتے۔ گویا قدیم زمانہ میں بنی عرب سے پہلے یہ فقرہ تصویری طور پر مکہ معظمہ کی مقدس مسجد پر رکھا تھا کہ اس شہر میں وہ کونے کا پتھر ظاہر ہوگا، جسے یوں کہا جائے گا کہ نبوت اور رسالت کی عظیم الشان اور مستحکم عمارت جو کہ انبیا اور رسولوں کی وجود ذی جود سے تیار ہوئی ہے، اسی پتھر سے پوری ہوئی، اور اسی کونے کے پتھر کی یہ شان ہوگی کہ ان کی بیعت رحمان کی بیعت اور ان کی اطاعت رحمان کی اطاعت ہے۔ حضرت رسالتِ مآب ﷺ نے بھی اسی طرف ارشاد فرمایا ہے۔ آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں: ’’مثلي ومثل الأنبیاء کمثل قصر أحسن بنیانہ وترک منہ موضع لبنۃ منہ‘‘ إلی أن قال: ’’فکنت أنا سددت موضع اللبنۃ‘‘۔