احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
القرآن کہا جاوے تو اس صورت میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بالعموم قطبین پر بنی آدم کے علاوہ دوسرے حیوانات کی آبادی بھی بوجہ انجمادِ برف و آب وبرودت قریباً ناممکن نظر آتی ہے، اس لیے جہاں خدا نے بنی آدم کی آبادی ہی نہیں رکھی وہاں روزہ کا تعین بھی نہیں ہوا۔ خوب سوچو کہ بادشاہی احکام کا نفاذ و اجرا وہاں ہی ہوتا ہے جہاں اس کی رعیت ہو اور جہاں اس کی رعیت ہی نہ ہو وہاں احکام کا اجرا ہی نہیں ہوتا۔ اور پہلے جواب کی شرح یہ ہے کہ ماہِ رمضان جو کہ روزوں کامہینہ ہے قمری ہے۔ چناںچہ خدا تعالیٰ بعد ایجابِ صوم اس کا وقت بتلانے کے لیے فرماتے ہیں: {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ}1 یعنی رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔ اور ظاہر ہے کہ رمضان قمری مہینہ ہے اور ہر قمری مہینہ ۲۹ دن بارہ گھنٹے اور ۲۴ منٹ کا ہوتا ہے۔ إذا فات الشرط فات المشروط۔ اور علما کا اختلاف اوپر مذکور ہوچکا ہے۔وجہ تقرر صدقۂ فطر : ۔ عید الفطر میں صدقہ اس واسطے مقرر کیا گیا ہے کہ اوّل تو اس کے سبب عید الفطر کے شعارِ الٰہی میں سے ہونے کی تکمیل ہوتی ہے، دوسرے یہ کہ اس میں روزہ داروں کے لیے طہارت اور ان کے روزہ کی تکمیل ہے۔ جس طرح کہ نماز میں فرائض کی تکمیل کے لیے سنتیں مقرر کی گئی ہیں ایسا ہی یہ صدقہ مقرر ہوا۔ ۲۔ اغنیا اور دولت مندوں اور ذی وسعت لوگوں کے گھروں میں تو اس روز عید ہوتی ہے مگر مسکین و مفلسوں میں بوجہ ناداری کے اسی طرح سے شکلِ صوم موجود ہوتی ہے، لہٰذا خدا تعالیٰ نے ذی وسعت لوگوں پر بوجہ شفقت علی خلق اللہ لازم ٹھہرایا کہ مساکین کو عید سے پیشتر صدقہ دے دیں تاکہ وہ بھی عید کریں، یہاں تک کہ نمازِ عید پڑھنے سے پیشتر ہی ان کو صدقہ دینا لازم ٹھہرایا اور اگر مساکین کثرت سے ہوں تو یہ صدقہ خاص جگہ جمع کرنے کا ایما ہوا، تاکہ مساکین کو یقین ہوجاوے کہ ہمارے حقوق کی حفاظت کی جاوے گی۔