احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیلوں اور گائیوں کی زکاۃ کا نصاب تیس سے شروع ہونے کی حکمت : گائے، بیل کی زکاۃ تیس گائیوں میں ایک سال کا بچھڑا یا بچھیا ہے اور ہر چالیس میں دو برس کا بچھڑا یا بچھیا ہے یہ اس لیے کہ گائے، بیل کی جنس اونٹ اور بکری کے درمیان ہے اس لیے اس میں دونوں کی مشابہت کا لحاظ کیا گیا۔زکاۃ کی ہر چیز میں ایک خاص نصاب زکاۃ مقرر ہونے کی وجہ : زکاۃ کے لیے نصاب مقرر ہونے کی یہ وجہ ہوئی کہ اگر ہر طرح کے مال کی مقدار مقرر نہ ہوتی تو انتظام و انضباط نہ ہوتا، اس لیے تو نصاب مقرر ہوا۔ پھر اس واجب کی مقدار بھی اسی لیے مقرر ہوئی اور اس مقدار میں یہ بات ضروری تھی کہ یہ مقدار بہت زیادہ نہ مقرر کی جائے کہ اس کے دینے سے لوگوں کو بوجھ معلوم ہو اور عقلِ سلیم و فطرتِ صحیحہ کا اجمالا اتنا تو مقتضا ہے کہ کثرتِ مال پر کثیر زکاۃ دینا لازم ہے، لیکن اگر رائے پر چھوڑا جاتا اور مقدار مقرر نہ ہوتی تو جن اشخاص کو زیادہ زکاۃ دینی پڑتی وہ حرصِ مال کی باعث بہت تھوڑی زکاۃ دیتے اور اس سے غربا و مساکین کی رفعِ حاجت نہ ہوتی۔حقیقت نصاب زکاۃِ زراعت : جن کھیتوں نے بارش و چشموں کے پانی سے پرورش پائی ہے ان پر دسواں حصہ واجب ہے اور جن کھیتوں کو نہر و چاہ وغیرہ سے پانی دیا جاتا ہے ان پر بیسواں حصہ ہے، کیوںکہ جن میں محنت کم ہوتی ہے اور پیداوار زیادہ ہوتی ہے ان پر لگان زیادہ ہونا چاہیے اور جس میں محنت زیادہ ہے اور پیداوار کم ہے اس کے لگان میں تخفیف مناسب ہے۔سال میں ایک بار ادائے زکاۃ کی وجہ : زکاۃ ادا کرنے کی ایک ایسی مدت کا مقرر کرنا ضروری ہوا جس میں سب لوگوں سے زکاۃ وصول کرسکیں اور نیز یہ بات بھی ضروری تھی کہ وہ مدت بہت کم نہ ہو کہ جلد ان کو زکاۃ دینی پڑے اور اس کا ادا کرنا ان کو دشوار ہو اور نہ وہ مدت اس قدر دراز ہو کہ اس کے ادا کرنے سے ان کا بخل کچھ کم نہ ہو اور محتاج لوگ انتظارِ