احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چار گانہ آخری دو رکعتوں میں سورت ضم نہ کرنے کا راز : دراصل ابتدا میں نماز دو رکعتیں ہی مقرر ہوئی تھی بعد ازاں خدا تعالیٰ نے ان دو رکعتوں کی تکمیل و اکمال کے لیے ظہر و عصر و عشا کے فرائض کے ساتھ دو دو رکعتیں اور مغرب کی نماز میں حکمتِ و تر کو ضائع نہ کرنے کی وجہ سے ایک رکعت ملائی، اور قاعدہ ہے کہ جب کسی چیز کا جبرِ کسر مطلوب ہوتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے نوع کی ایسی چیز ملائی جاتی ہے جو حیثیت و درجہ میں اس سے ادنیٰ ہو۔ پس اگر پہلی دو رکعت فرائض کے ساتھ دوسری دو رکعت کامل مع ضمِ سورت ملائی جاتیں، جو ہر درجہ و ہر پہلو سے پہلی دو رکعتوں کی برابر ہوتیں تو جبرِ کسر و اکمالِ رکعتین کی حکمت ضائع ہوجاتی۔ اور خود پہلی دو رکعتوں کا جبر و کسر اسی مصلحت سے ہوا کہ بسا اوقات حضور و توجہ یا فہم یا قرأت میں یا ارکان میں سے کسی رکن میں نقص و کسر رہ جاتی ہے، اس لیے اس کے عوض میں دوسری رکعتیں ملائی گئیں۔جماعت نما زکی اور اس میں صفوں کو برابر کرنے کی وجہ : نماز میں جو جماعت رکھی ہے اور جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہ غرض ہے کہ اس سے قوم میں وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی محاذی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے اطوار دوسرے میں سرایت کرسکیں اور باہم وہ امتیاز جس میں خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے۔حقیقتِ تحیۂ نماز : عبادات فقط اللہ جل جلالہ ہی کا حق ہے، کسی قسم کی عبادت میں اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ تعالیٰ اس بات سے غنی ہے کہ کوئی اس کا شریک اور ساجھی ہو، یہ حاصل ہے التحیات للّٰہ کا۔ پھر اس سے آگے ہے: السلام علیک أیھا النبي ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ قاعدہ کی بات ہے کہ ہر محسن اور مربی کی محبت کا جوش انسان کے دل میں فطرتاً پیدا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہم پر کیسے کیسے احسانات ہیں، وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہم نے خدا کو جانا مانا پہچانا، وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہمیں خدا کے اوامر و نواہی اور اس کی خوش نودی حاصل کرنے کی راہیں معلوم ہوئیں، وہی ہیں جن کے ذریعہ سے خدا کی عبادت کا اعلیٰ سے اعلیٰ طریقہ یعنی اذان اور نماز ہمیں میسر ہیں، وہی ہیں