احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عورت کے لیے ایک سے زیادہ خاوند کرنے سے ممانعت کی وجہ : ۱۔ عورت اولاد کے حق میں ایسی ہے جیسے زمین پیداوار کے حق میں، مگر پیداوار کو تو بوجہ تشابہِ اجزا برابر بانٹ سکتے ہیں، اس لیے اس کی شرکت میں کچھ حرج نہیں، مگر ایک عورت اگر چند مردوں میں مشترک ہو تو بوجہ استحقاقِ قضائے حاجت، اس صورت میں اوّل تو اسی وجہ سے اندیشہ فساد و عناد ہے شاید ایک ہی وقت سب کو ضرورت ہو، دوسرے بعدِ نکاح اگر بوجہ استحقاقِ مذکور سب اس سے اپنا مطلب نکالتے ہیں تو در صورتِ تولد فرزند واحد تو فرزند کو پارہ پارہ نہیں کرسکتے جو اس طرح تقسیم کرکے اپنے پارہ کو ہر کوئی لے جائے، اور متعدد فرزند ہوں تو بوجہ اختلافِ ذکورت و انوثت، و تفاوتِ شکل و صورت، و تباینِ خلق و سیرت، و فرق ِقوت و ہمت موازنہ ممکن نہیں، جو ایک کو لے کر اپنے دل کو سمجھا لیں، پھر بوجہ تساوی محبت جملہ اولاد یہ دوسری دقت رہی کہ ایک کے وصال سے اتنا سرور نہ ہوگا جتنا اوروں کے فراق سے رنج اُٹھانا پڑے گا، پھر اس وجہ سے خدا جانے کیا فتنہ برپا ہو۔ غرض ہر طور اس انتظام میں خرابی نظام عالم تھی۔ ہاں! اگر ایک مرد ہو اور متعدد عورتیں ہوں تو جیسے ایک کسان متعدد کھیتوں اور زمینوں میں تخم ریزی کرسکتا ہے ایسے ہی ایک مرد بھی متعدد عورتوں سے بچے جنوا سکتا ہے اور پھر اس کے ساتھ اور کوئی خرابی نہیں، عورتوں کے رنج سے چنداں فساد کا اندیشہ نہیں، قتل وقتال کا کچھ خوف نہیں۔ ۲۔ عورت موافق قواعدِ اسلام محکوم اور مرد حاکم ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو وہ مالک ہوتا ہے کہ اس کو مالک کہا کرتے ہیں، اور کیوںکر نہ کہیں باندیاں تو مملوک ہوتی ہی ہیں، بیبیاں بھی بدلیلِ مہر ان کی خریدی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہاں اگر اعتاق تو یہاں طلاق، یعنی جیسے باندی غلام باختیارِ خود قیدِ غلامی سے رہا نہیں ہوسکتے، ہاں! مالک کو اختیار ہے وہ چاہے تو آزاد کردے، ایسے ہی عورت باختیارِ خود قیدِ خاوند سے رہا نہیں ہوسکتی، البتہ خاوند کو اختیار ہے چاہے تو طلاق دے دے۔ جیسے باندی غلام کا نان و نفقہ مالک کے ذمہ ہوتا ہے ایسے ہی عورت کا نان و نفقہ خاوند کے ذمہ ہے، جیسے مالک ایک اور غلام باندی کئی کئی ہوتے ہیں ایسے ہی خاوند ایک اور عورتیں کئی کئی ہوتی ہیں۔ بالجملہ عورتیں موافق قواعد اہلِ اسلام مملوک اور محکوم اور خاوند مالک اور حاکم ہوتا ہے اور خاوند کی طرف سے بیع و ہبہ کا نہ ہوسکنا دلیل عدم الملک نہیں، اگر یہ بات دلیل عدم الملک ہوا کرے تو خدا کا مالک ہونا بھی ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ بیع و ہبہ سے منتقل نہ ہونا بعد ثبوتِ ملک جس کا بیان ہوچکا اسی طرح قوتِ ملک پر دلالت کرتا ہے جیسے خدا کے ملک کا منتقل نہ ہونا اس کے ملک کی قوت پر دلالت کرتا ہے اور اس وجہ سے شوہر کو دربارۂ مالکیت خدا سے مشابہتِ تام ہے۔ ہر چند خدا کے ملک کے سامنے شوہر کی ملک برائے نام ہے اور پھر اس کے