احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے ایک پہاڑ اتار دیا۔ یہ ایسا امر ہے جس کو ہر ایک سلیم طبع اور صحیح فطرت والا جانتا ہے۔ ۳۔ جنابت سے انسان کو ارواحِ طیبہ یعنی فرشتوں سے ۔ُبعد ودوری پیدا ہوتی ہے اور جب غسل کرتا ہے تو وہ ۔ُبعد اور دوری ہٹ جاتی ہے، اس لیے بہت سے صحابۂ کرام ؓ سے مروی ہے کہ جب انسان سوتا ہے تو اس کی روح آسمان کی طرف چڑھتی ہے، اگر پاک ہو تو اس کو سجدہ کرنے کا امر ہوتا ہے اور اگر جنابت میں ہو تو اس کو سجدہ کا اذن نہیں دیا جاتا، یہی وجہ ہے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’جنبی جب سونے لگے تو وضو کرلے‘‘۔ ۴۔ جب انسان مجامعت سے فارغ ہوتا ہے تو اس کا دل انقباض اور تنگی کی حالت میں ہوتا ہے اور اس پر تنگی اور غم سا طاری ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو نہایت تنگی اور گھٹن میں پاتا ہے۔ اور جب دونوں قسم کی نجاستیں دور ہوجاتی ہیں اور اپنے بدن کو ملتا اور غسل کرتا ہے اور اچھے کپڑے بدل کر خوش بو لگاتا ہے تب اس کی تنگی دور ہوجاتی ہے اور بجائے اس کے بہجت اور خوشی معلوم ہوتی ہے۔ پہلی حالت کو حدث اور دوسری کو طہارت کہتے ہیں۔ ۵۔ حاذق طبیبوں نے لکھا ہے کہ جماع کے بعد غسل کرنا بدن کی تحلیل شدہ قوتوں اور کمزوریوں کو لوٹا دیتا ہے اور بدن و روح کے لیے نہایت نافع اور مفید ہے، اور جنابت میں رہنا اور غسل نہ کرنا بدن و روح کے لیے سخت مضر ہے، اس امر کی خوبی پر عقل و فطرتِ سلیمہ کافی گواہ ہیں۔ نیز اگر شارع ؑ خروجِ بول و براز سے غسل کرنا لازم ٹھہراتے، تو لوگوں کو سخت حرج ہوتا اور محنت اور مشقت میں پڑ جاتے جو کہ حکمت اور رحمت و مصلحتِ الٰہی کے خلاف ہے۔ ۶۔ جماع میں تلذ۔ّذ ہوتا ہے اور اس سے ذکرِ الٰہی میں غفلت ضرور ہوجاتی ہے، اس لیے اس کی تلافی کے لیے غسل کیا جاتا ہے۔ ۷۔ منی کے نکلنے سے بدن کے تمام مسامات کھل جاتے ہیں اور کبھی ان سے پسینہ نکلتا ہے اور پسینہ کے ساتھ اندرونی حصۂ بدن کے گندے مواد بھی خارج ہوتے ہیں، جو کہ مسامات پر آکر ٹھہر جاتے ہیں، اگر ان کو دھویا نہ جاوے تو خطرناک امراض پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔باب نواقض الوضوء والتیمم خروجِ بول و براز و ریح سے امرِ وضو کی وجہ : خروجِ ریح و بول و براز کی بدبو سے اندرونی حالتِ نفس کو ایک قسم کی نجاست و یبوست و ضعف لاحق ہوتا اور ملائکہ سے بعد ہوجاتا ہے اور شیاطین و جنات اس کو گھیر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ