احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رجعت کے ہوتا، کیوںکہ مطلقہ سے نکاح کرنا یہ بھی ایک قسم کی رجعت ہی ہے اور عورت جب تک خاوند کے گھر میں اور اس کے قبضہ میں اور اس کے اقارب کے پاس ہے اس وقت تک احتمال ہے کہ خاوند اس کی رائے پر غالب رہے اور وہ بالاضطرار اس رائے کو پسند کرے، جس کی خوبی اس عورت کے سامنے یہ لوگ بیان کریں، اور جب ان سے بالکل جدا ہوجاوے اور زمانہ کی سردی و گرمی کا مزہ چکھ لے اور اس کے بعد ہی اس شخص سے راضی ہوجاوے تو یہ رضا مندی فی الواقع رضا مندی ہے، اور نیز اس نکاحِ شوہرِ ثانی کے اشتراط میں اس کو مفارقت کا مزہ چکھانا اور بلا کسی ضروری مصلحت کے سوچے طلاق دینے کے باب میں تقاضائے نفسانی کے تابع ہونے کا عذاب دینا ہے، اور نیز اس اشتراط میں مطلقہ ثلاثہ کا اس شخص کی آنکھوں میں عزت دینا ہے اور اس بات کا جتانا ہے کہ تین طلاق پر وہی شخص دلیری کرسکتا ہے جو بغیر ذلت اور حد سے زیادہ بے عزتی کے اپنے نفس کو اس عورت کے متعلق طمع کے قطع کرنے پر راضی و قائم کرے۔طلاقِ رجعی کا دو تک محدود ہونے کی وجہ : اہلِ جاہلیت جس قدر چاہتے تھے طلاقیں دے کر رجوع کرلیا کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ اس میں عورت پر کس قدر ظلم تھا، لہٰذا آیتِ کریمہ نازل ہوئی: {اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ} یعنی ایسی طلاق دوبار ہے جس کے بعد رجوع ہوسکتا ہے۔ پھر اگر تیسری طلاق دے تو اس کے بعد تو جب تک وہ عورت برضائے خود کسی اور خاوند سے نکاح نہ کرلے پہلے کے لیے وہ حلال نہیں ہوسکتی۔ آں حضرت ﷺ نے اس نکاح کے ساتھ صحبت کرنے کو بھی شرط فرمایا ہے اور اس اشتراط سے ہماری یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ وہ عورت خاص حلالہ ہی کی غرض سے دوسرے سے نکاح کرے گی، بلکہ نکاح تو ہمیشہ کی آبادی کی غرض سے کرے مگر اتفاقاً اگر وہاں بھی طلاق ہوجاوے تو شوہر ِاوّل سے نکاح جائز ہے۔تین طلاق دینے اور پھر نکاحِ ثانی کے بعد پہلے مرد پر اس عورت کے حلال ہونے کی وجہ : یہ سوال حضرت ابنِ قیم ؒ پر وارد ہوا تھا،اس پر جو جواب انھوںنے اپنی کتاب ’’إعلام الموقعین عن رب العالمین‘‘ میں درج فرمایا ہے، ہم اس کا ترجمہ بطورِ ملخص یہاں لکھ دیتے ہیں۔ وھو ہذا: تین طلاق کے بعد مرد پر عورت کے حرام ہونے اور دوسرے نکاح کے بعد پھر پہلے مرد پر جائز ہونے کی حکمت کو وہی