احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسرے پر ہوتے رہتے ہیں، پس اگر رفعِ فقر اور حاجت کا طریقہ ان میں نہ پایا جائے تو ضرور وہ ہلاک ہوجاویں اور بھوکے مرجاویں۔چاندی کے نصاب پانچ اوقیہ یعنی دو سو درہم مقرر ہونے کی وجہ : چاندی کی مقدار پانچ اوقیہ یعنی دو سو درہم اس واسطے مقرر فرمائے کہ یہ مقدار چھوٹے سے چھوٹے کنبہ کو بشرطے کہ اکثر ملکوں میں غلہ کا نرخ قریب قریب اور معتدل ہو پورے ایک سال کے لیے کافی ہوسکتی ہے، پس ایک سو نوے درہم چاندی ہو تو اس پر کچھ زکاۃ دینی نہیں پڑتی۔پانچ اونٹوں کے نصابِ زکاۃ مقرر ہونے کی وجہ : اونٹ کے نصاب کی تعداد پانچ مقرر کی گئی، کیوںکہ زکاۃ کی نصاب ایک مقدارِ کثیر مقرر کرنا چاہیے اور اونٹ سب مویشیوں میں عظیم الجثہ اور بڑا نفع پہنچانے والا جانور ہے، خواہ اس کو ذبح کرکے کھاؤ، خواہ اس پر سواری کرو اور دودھ پیو، خواہ اس سے بچے لو، اس کے بال اور کھال سب کام میں آتے ہیں۔ اس لیے پانچ کا عدد اس کے مناسب ہے کہ ایک معتد بہ مقدار ہے اور اس کی زکاۃ میں ایک بکری واجب ہوئی، کیوںکہ زمانۂ سابق میں کوئی اونٹ دس اور کوئی آٹھ اور کوئی بارہ بکریوں کے برابر سمجھا جاتا تھا، جیسا کہ بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے، اس واسطے پانچ اونٹ بکریوں کے ادنیٰ نصاب کی برابر سمجھے گئے اور ایک بکری ان کی زکاۃ سمجھی گئی۔بکریوں کے نصابِ زکاۃ چالیس سے شروع ہونے کی وجہ : بکریوںکی زکاۃ چالیس سے سو تک میں ایک بکری ہے اور اس سے آگے دو سو تک دو بکریاں ہیں، بعد ازاں ہر سینکڑہ پر ایک بکری ہے۔ اس میںیہ وجہ ہے کہ بکریوں کا گلہ تھوڑا بھی ہوتا ہے اور بکریوں کا پالنا آسان بھی ہوتا ہے اور ہر شخص اپنی گنجایش کے موافق پال سکتا ہے، اس لیے آں حضرت ﷺ نے چھوٹے گلے کا اندازہ چالیس بکریوں کے ساتھ کیا اور پھر ہر سینکڑہ پر حساب کی آسانی کے لیے ایک بکری مقرر کی۔