احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
مسعود! یاد رکھو کہ جس قدر طاقتور حاکم تم اس پر ہو اس سے زیادہ طاقتور حاکم خدا تم پر ہے‘‘۔ ابو مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جب میں نے پیچھے پھر کر دیکھا تو آں حضرت ﷺ تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میں نے اسی وقت اس کو خدا کے لیے آزاد کردیا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو تم آگ میں پڑتے‘‘۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کے متعلق روایت ہے کہ آپ نے ایک روز دیکھا کہ ایک آدمی سوار ہے اور اس کا غلام اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا ’’اسے اپنے پیچھے بٹھالو، کیوںکہ یہ تمہارا بھائی ہے اور اس کی روح بھی تمہاری روح کی طرح ہے‘‘۔ معرور کہتے ہیں: میں نے ابو ذر ؓ کو دیکھا کہ وہ ایک عمدہ لباس پہنے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا، تو فرمایا کہ ایک دفعہ میں نے ایک آدمی کو (اس سے مراد کوئی غلام ہے) کچھ برا بھلا کہا۔ اس نے میری شکایت نبی کریم ﷺ کے پاس کی۔ آپ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’تم نے اس کی ماں سے اس کو عار دلائی‘‘ اور پھر فرمایاکہ ’’تمہارے غلام اور نوکر چاکر تمہارے بھائی ہیں، پس جس شخص کا بھائی اس کے ہاتھ کے نیچے ہو اسے چاہیے کہ اپنے کھانے سے اسے کھلائے اور اپنے لباس سے کپڑا پہناوے۔ تم اپنے غلاموں کو ایسا کام نہ دو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر دو تو پھر اس کے کرنے میں خود مدد دو‘‘۔ حضرت عثمان ؓ کے متعلق روایت ہے کہ آپ نے ایک غلام کی نافرمانی کی وجہ سے اس کا کان مروڑا اور پھر اپنے فعل سے توبہ کی اور اسی غلام سے کہا کہ تو بھی اسی طرح میرا کان مروڑ۔ مگر اس نے انکار کیا۔ آپ نے اصرار کیا تو اس نے آہستہ آہستہ کان مروڑنا شروع کیا۔ آپ نے کہا: زور سے مروڑ، کیوںکہ میں قیامت کے دن سزا برداشت نہیں کرسکتا۔ غلام نے جواب دیا: اے میرے آقا! جس دن سے توڈرتا ہے اسی دن سے میں بھی ڈرتا ہوں۔ حضرت زین العابدین کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ ان کے ایک غلام نے بھیڑ کو پکڑتے ہوئے اس کی ایک ٹانگ توڑ دی۔ انھوںنے کہا کہ تم نے کیوں ایسا کیا؟ کہا: آپ کو غصہ دلانے کے لیے۔ آپ نے فرمایا: جس نے تجھے یہ تعلیم دی میں اسے غصہ دلاؤں گا (یعنی شیطان کو) جا اور تو خدا کے لیے آزاد ہے۔ غلاموں یا آزاد کردہ غلاموں کو بڑے بڑے عہدے دیے جاتے تھے۔ اُسامہ کو جو کہ حضرت زید کے بیٹے تھے خود آں حضرت ﷺ نے ایک فوج کا افسر بنایا۔ قبل اس کے کہ یہ فوج روانہ ہو آں حضرت ﷺ کا انتقال ہوگیا۔ حضرت ابوبکر ؓ کو لوگوں نے کہا کہ آپ کسی اور بڑے آدمی کو افسر بنائیں، مگر آپ بہت ناراض ہوئے کہ جو کام میرے پیارے محبوب اور آقا نے کیا ہے میں اسے منسوخ کروں؟ جب فوج کی روانگی کا وقت آیا تو آپ اسامہ کے ساتھ ساتھ پیدل روانہ ہوئے اور وہ سوار تھے۔ انھوں نے عرض کی کہ اے خلیفہ رسول اللہ! یا آپ بھی سوار ہوجائیں اور یا مجھے اجازت دیں کہ میں بھی