احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چاہیے کہ تم یہ نہ کہو کہ میرا غلام یا میری لونڈی بلکہ یوں کہو کہ میرا فتا یا فتاۃ یا اے میرے نوجوان۔ یہ لفظ ’’فتا‘‘ ہر ایک جوان مرد اور جوان عورت پر بولے جاتے ہیں، لفظ غلام بھی عربی میں اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عبد اور امہ کہنے سے اس لیے روکا کہ یہ الفاظ عموماً لونڈیوں اور غلاموں پر بولے جاتے تھے۔ اور وہ الفاظ جن کے بولنے کی ہدایت کی ہے وہ عام ہیں، آزاد مردوں اور عورتوں پر بھی بولیے جاتے ہیں اور اس نہی کی اور توجیہ بھی ہے ۔ اس کے بعد میں یہ بیان کروں گا کہ ان ہدایات پر عمل بھی کیا جاتا تھا یا نہیں اور اگر کیا جاتا تھا تو کس حد تک، مگر قبل اس کے کہ میں عمل کی نظیریں پیش کروں ایک شبہ کا ازالہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اگر غلاموں کو اس قدر حقوق دیے گئے تھے اور ان کی اس قدر رعایت ضروری تھی جیسا کہ حدیثوں سے پتا لگتا ہے تو پھر مالک اور مملوک میں فرق ہی کیا تھا؟ اس کا جواب خود آں حضرت ﷺ کی حدیث میں موجود ہے اور یہ حدیث بھی ’’صحیح بخاری‘‘ میں مذکور ہے، چناںچہ فرمایا: کلکم راعٍ، وکلکم مسؤل عن رعیتہ۔ فالأمیر الذي علی الناس راعٍ وھو مسئول عنھم، والرجل راعٍ علی أھل بیتہ وھو مسئول عنھم، والمرأۃ راعیۃ علی بیت بعلھا وولدہ وھي مسؤلۃ عنھم، والعبد راعٍ علی مال سیدہ وھو مسئول عنہ۔ یعنی تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور اس سے اپنی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ پس امیر جو لوگوں پر مقرر حاکم ہے اس سے ان لوگوں کے متعلق پوچھا جائے گا اور صاحب خانہ اپنے اہل خانہ پر حاکم ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور عورت اپنے خاوند کے گھر پر اور اس کی اولاد پر حاکم ہے اور اسے ان کے متعلق پوچھا جائے گا، اور غلام اپنے آقا کے مال پرحاکم ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اس حدیث کی رو سے ہر ایک شخص کے سپرد جدا جدا کام ہے اور ایک رنگ میں ایک شخص حاکم ہے اور دوسرے رنگ میں وہی محکوم ہے۔ اسلام ایسی مساوات کی تعلیم نہیں دیتا جس سے چھوٹوں بڑوں کا امتیاز بھی اُٹھ جائے اور دنیا کے کاروبار بند ہوجائیں، بلکہ ایک ایسی اخوت قائم کرتا ہے کہ کام بھی سب کے الگ الگ رہیں اور سوسائٹی میں بڑے بھی ہوں اور چھوٹے بھی، مگر اس کے ساتھ ہی ان میں انسان اور پھر بھائی ہونے کی حیثیت سے ایک مساوات بھی ہو۔ نہ کام مقرر کرنے سے اسلام کی پاک تعلیم کا یہ منشا ہے کہ آقا غلام کے کام کو ذلیل سمجھ کر اسے ہاتھ نہ لگانے دے اور آقا کا کام غلام کی عزت سے بڑھ کر سمجھا جاوے، بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ ضرورت کے وقت آقا غلام کے کام میں اس کی مدد کرے اور جو فوائد آقا اُٹھاتا ہے غلام کو ان سے محروم نہ رکھا جائے۔ البتہ فرق دونوں میںیہ رکھا ہے کہ آقا کو چاہیے کہ وہ اپنے غلام سے نیکی کرے اور احسان برتے، اور غلام کا فرض ہے کہ وہ اپنے آقا کی سچے دل سے فرماں برداری کرے، وہ اپنے اپنے