احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرایا، مگر آج باوجود تیرہ سو سال گزر جانے کے اور باوجود بڑے بڑے ہمدردی کے دعوؤں کے کسی شخص میں اس قدر اخلاقی جرأت بھی نہیں جو ان ہدایتوں پر عمل کرنا تو درکنار رہا نوکروں کے متعلق اسی قسم کی ہدایتیں دینے کی جرأت کرے۔ اب چند اور حدیثیں نقل کرتا ہوں تاکہ ناظرین کو معلوم ہو کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے کس قدر تاکید غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے متعلق کی ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ مرض الموت میں آپ کے منہ میں یہ الفاظ تھے: الصلاۃ وما ملکت أیمـانکم جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’دو چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھو یعنی نماز اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ حسن سلوک‘‘۔ اس حدیث سے کیسی صفائی کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں انسانوں کے ساتھ اور خصوصاً اس جماعت کے ساتھ جس کو دنیا کی سب قوموں نے ذلیل سمجھا اور اب تک ذلیل سمجھ رہے ہیں (یعنی غلام)، کیسا سچی ہمدردی کا جوش تھا اور کس قدر ان کی بہتری کا فکر آپ کو تھا کہ اخیر وقت میں بھی یہی لفظ آپ کے منہ سے نکلے، آپ کیا چاہتے تھے۔ ایک شخص کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ آپ کے پاس آیا اور آپ سے پوچھا کہ میں کتنی مرتبہ اپنے غلام کو معاف کیا کروں؟ آپ نے منہ پھیر لیا اور کوئی جواب اس کے سوال کا نہ دیا، وہ دوسری دفعہ اور پھر تیسری دفعہ سامنے آیا اور یہی سوال دہرایا اور آں حضرت ﷺ نے اسی طرح بغیر جواب دینے کے منہ پھیر لیا۔ چوتھی مرتبہ جب اس نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: اعف عن عبدک سبعین مرۃ في کل یوم۔ یعنی تو ہر روز ستر دفعہ اپنے غلام کو معاف کیا کر۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا آج ان اقوام میں جو مہذب کہلاتی ہیں ایک آدمی بھی ایسا ہے جو اپنے خدمت گار کو باوجود اس کے قصور کے ستر دفعہ معاف کرسکے؟ مگر اسلام میں غلاموں کے متعلق واقعی ایسا عمل در آمد ہوا۔ آپ کا دل یہ بھی گوار نہ کرسکتا تھا کہ غلام کو غلام پکارا جائے، کیوںکہ اس نام میں حقارت پائی جاتی تھی اور آپ پسند نہ کرتے تھے کہ کسی قسم کی بھی تحقیر ان کی کی جائے، چناںچہ امام بخاری ؒ نے یہ حدیث روایت کی ہے: لا یقل أحدکم: عبدي وأمتي ولیقل: فتاي وفتاتي وغلامي۔