احکام اسلام عقل کی نظر میں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہمارے نبی کریم ﷺ نے غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے پر دیا اور پھر خود بھی اس حسنِ سلوک کا نمونہ دکھایا ہے، اس سے اگر موازانہ کیا جائے تو یہی کہنا پڑے گا کہ کسی دوسرے مصلح نے آپ کے بالمقابل کچھ بھی نہیں کیا۔ سب سے پہلے میں ’’صحیحِ بخاری‘‘ کی احادیث کو بیان کرتا ہوں اور پھر دوسری متفرق احادیث کو۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: إِنَّ إِخْوَانَـکُمْ خَوَلُـکُمْ، جَعَلَھُمُ اللّٰہُ تَحْتَ أَیْدِیْکُمْ۔ فَمَنْ کَانَ أَخُوْہُ تَحْتَ یَدِہِ فَلْیُطْعِمْہُ مِمَّا یَأْکُلُ، وَلْیُلْبِسْہُ مِمَّا یعنی یہ تمہارے بھائی تمہارے خدمت گار ہیں، اللہ نے انھیں تمہارے ہاتھ کے نیچے رکھا ہے، پس جس شخص کا بھائی اس کے ہاتھ کے نیچے ہو یَلْبَسُ، وَلَا تُکَلِّفُوْھُمْ مَا یَغْلِبُھُمْ، فَإِنْ کَلَّفْتُمُوْھُمْ مَا یَغْلِبُھُمْ فَأَعِیْنُوْھُمْ۔ اسے چاہیے کہ جو چیز آپ کھاتا ہے اسی میں سے اسے بھی کھلاوے اور جو پوشاک آپ پہنتا ہے اسی میں سے اسے بھی پہنا دے اور ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو، اور اگر ان کی طاقت سے زیادہ کام ان کو دو تو پھر ان کو مدد بھی دو۔ بتاؤ کہ اور کون سا انسانوں کا ہمدرد پیدا ہوا ہے یا کون مصلح ہے جس نے ایسی کامل اخوت آقا اور غلام میں پیدا کی ہو جو صرف الفاظ تک ہی محدود نہیں، بلکہ عملی رنگ میں ہے کہ مالک اور مملوک کا ایک ایسا ہی لباس اور ایک سی خوراک ہو؟ پھر یہی نہیں بلکہ غلاموں کی حالت بہت ہی قابلِ رشک معلوم ہوتی ہے جب ہم آپ کے ایک صحابی ؓ کے یہ پیارے الفاظ پڑھتے ہیں: وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ، لَوْ لَا الْجِھَادُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْحَجُّ وَبِرُّ أُمِّيْ لَأَحْبَبْتُ أَنْ أَمُوْتَ وَأَنَا مَمْلُوْکٌ۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر اللہ کی راہ میں جہاد اور حج اور اپنی ماں کی خدمت نہ ہوتی تو میں پسند کرتا کہ غلامی کی حالت میں ہی مروں۔ پھر غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ حسنِ سلوک صرف اسی حد تک محدود نہیں رکھا گیا کہ ان سے کام لیا جائے اور ان کے